Bayan-ul-Quran - Al-Israa : 26
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا
وَاٰتِ : اور دو تم ذَا الْقُرْبٰى : قرابت دار حَقَّهٗ : اس کا حق وَالْمِسْكِيْنَ : اور مسکین وَ : اور ابْنَ السَّبِيْلِ : مسافر وَ : اور لَا تُبَذِّرْ : نہ فضول خرچی کرو تَبْذِيْرًا : اندھا دھند
اور حق ادا کرو قرابت داروں مسکینوں اور مسافروں کا اور فضول میں مال مت اڑاؤ
آیت 26 وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا تبذیر کے معنی بلاضرورت مال اڑانے کے ہیں اور یہ اسراف سے بڑا جرم ہے۔ اسراف تو یہ ہے کہ کسی ضرورت میں ضرورت سے زائد خرچ کیا جائے۔ مثلاً کھانا کھانا ایک ضرورت ہے اور یہ ضرورت دو روٹیوں اور تھوڑے سے سالن سے بخوبی پوری ہوجاتی ہے مگر اسی ضرورت کے لیے اگر کئی کئی کھانوں پر مشتمل دستر خوان سجا دیے جائیں تو یہ اسراف ہے۔ اسی طرح کپڑا انسان کی ضرورت ہے جس کے لیے ایک دو جوڑے کافی ہیں۔ اب اگر الماریوں کی الماریاں طرح طرح کے جوڑوں سوٹوں اور پوشاکوں سے بھری پڑی رہیں تو یہ اسراف کے زمرے میں آئے گا۔ اسراف کے مقابلے میں تبذیر سے مراد ایسے بےتحاشا اخراجات ہیں جن کی سرے سے ضرورت ہی نہ ہو مثلاً شادی بیاہ کی رسموں پر بےحساب خرچ کرنا اور نام و نمود کے لیے طرح طرح کے مواقع پیدا کر کے ان پر مال و دولت کو ضائع کرنا تبذیر ہے۔
Top