Tafseer-e-Saadi - Al-Israa : 26
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا
وَاٰتِ : اور دو تم ذَا الْقُرْبٰى : قرابت دار حَقَّهٗ : اس کا حق وَالْمِسْكِيْنَ : اور مسکین وَ : اور ابْنَ السَّبِيْلِ : مسافر وَ : اور لَا تُبَذِّرْ : نہ فضول خرچی کرو تَبْذِيْرًا : اندھا دھند
اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اڑاؤ
آیت نمبر 26 (وات ذالقربیٰ حقہ) ، ، اور دے رشتے دار کو اس کا حق ، ، یعنی رشتہ دار کو واجب و مسنون حسن سلوک اور اکرام و تکریم میں سے اس کا حق ادا کرو اور یہ حق احوال، زبان و مکان، ضرورت اور عدم ضرورت اور اقارب میں تفاوت کے مطابق متفاوت ہوتا ہے۔ (والمسکین) ، ، اور مسکین کو، ، یعنی زکوٰۃ وغیرہ میں سے مسکین کو اس کا حق ادا کرو تاکہ اس کی مسکینی دور ہوجائے۔ (وابن السمیل) ، ، اور مسافر کو ، ، اس سے مراد وہ غریب الوطن شخص ہے۔ جو اپنے شہر سے دور پھنس کر رہ گیا ہو۔ (ولا تبذیر تبذیراً ) ، ، اور بےجامت اڑا، ، پس مال اس طریقے سے عطا کیا جائے کہ عطا کرنے والے کو نقصان پہنچے نہ اس مقدار سے زئا دہو جو دی جانی چاہیے ورنہ یہ اسراف و تبذیر کے زمرے میں آئے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے اور بتلایا ہے کہ (ان المبذرین کانو اخوان الشیطین) ، ، بےجا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں، ، کیونکہ شیطان ہمیشہ ہر قسم کی مذموم خصلت ہی کی طرف دعوت دیتا ہے، وہ انسان کو بخل اور مال روک رکھنے کی طرف دعوت دیتا ہے اگر انسان اس کی بات نہ مانے تو وہ اسے اسراف اور تبذیر کی راہ پر لے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ معتدل اور مبنی برعدل رویے کا حکم دیتا ہے اور اس کی مدح کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے بارے میں فرماتا ہے : (والذین اذا انفقو لم یسرفو ولم یقترو وکانا بین ذالک قواماً ) (الفرقان : 67/25) ، ، رحمن کے بندے وہ ہیں جو خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچ کرتے ہیں نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ ، ، اور یہاں فرمایا : (ولا تجعل یدک مغلولاۃ الا عنقک) ، ، اور نہ رکھ اپنا ہاتھ بندھا ہوا اپنی گردن کے ساتھ، ، یہ بخل اور خرچ نہ کرنے کے لئے کنا یہ ہے۔ (ولا تبسطھا کلا البسط) ، ، اور نہ کھول اسے بالکل کھول دینا، ، ایسا نہ ہو کہ تم ان معاملات میں خرچ کرنے لگو جہاں خرچ کرنا مناسب نہیں یا جتنا خرچ کرنا ہو اس سے زیادہ خرچ کرنے لگو۔ (فتقعد) ، ، پس تو بیٹھ رہے گا، ، اگر تو نے یہ کام کیا (ملوماً ) ، ، الزام کھایا ہوا، ، یعنی اپنے کئے پر ملامت زدہ ہو کر (محسوراً ) ، ، ہارا ہوا، ، یعنی تم خالی ہاتھ ہو کر رہ جاؤ گے، تمہارے ہاتھ میں مال باقی بچے گا نہ اس کے پیچھے مدح وثناء۔۔۔ اور رشتہ دروں کو عطا کرنے کا یہ حکم صرف قدرت اور غنا کی صورت میں ہے۔ رہی تنگدستی اور اخراجات میں عدم گنجائش، تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کو نہایت اچھے طریقے سے جواب دیا جائے، پس فرمایا : (واما تعرضن عنھم ابتغاء رحمتہ من ربک ترجوھا) ، ، اگر تو اعراض کرے ان سے اپنے رب کی مہربانی کے انتظار میں جس کی تجھ کو امید ہے، ، یعنی اگر تم ان کو عطا نہیں کرتے اور تم اس کو کسی ایسے وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہو جب اللہ تمہیں خوشحالی عطا کرے۔ (فقل لھم قولاً میسوراً ) ، ، تو کہہ ان کو نرم بات، ، یعنی ان سے نرم لہجے میں بات کرو اور اچھا وعدہ کہ جب بھی گنجائش ہوئی تو ان کو عطا کیا جائے گا اور اس وقت عطا کرنا ممکن نہ ہونے پر ان سے معذرت کرے تاکہ جب وہ تمہارے پاس سے واپس جائیں تو ان کے دل مطمئن ہوں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (قول معروف و مغفرۃ خیر من صدقتہ یتبعھا اذی) (البقرۃ : 263/2) ، ، صدقہ دینے کے بعد ایذا پہنچانے سے تو یہ بہتر ہے کہ نرم بات کہہ دی جائے اور کسی ناگوار بات پر چشم پوشی کی جائے۔ ، ، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ اس نے ان کو رحمت اور رزق کا انتظار کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ یہ انتظار عبادت ہے۔ اسی طرح ضرورت مندوں کے ساتھ گنجائش اور فراخدستی کے وقت عطا کرنے کا وعدہ کرنا بھی عبادت ہے کیونکہ نیک کام کا ارادہ بھی نیکی ہے۔ اس لئے انسان کو چاہیے کہ مقدور بھر نیکی کرتا رہے اور جس نیک کام پر اسے قدرت نہیں اسے کرنے کی نیت رکھے تاکہ اسے ثواب ملتا رہے اور شاید اللہ تعالیٰ اس کی امید کے سبب سے اس کے لئے آسانی پیدا کر دے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء) ، ، بیشک آپ کا رب جس کے لئے چاہتا ہے روزی کشادہ کردیتا ہے، ، (ویقدر) اور جس کے لئے چاہتا ہے رزق تنگ کردیتا ہے۔ یہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے۔ (انہ کانا بعبادہ خبیراً بصیراً ) ، ، وہ اپنے بندوں کو خوب جاننے والا دیکھنے والا ہے۔ ، ، پس جو اس کے علم کے مطابق ان کے لئے درست ہے، اس پر انہیں جزا دے گا اور اپنے لطف و کرم سے ان کی تدبیر کرے گا۔
Top