Dure-Mansoor - Al-Israa : 26
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا
وَاٰتِ : اور دو تم ذَا الْقُرْبٰى : قرابت دار حَقَّهٗ : اس کا حق وَالْمِسْكِيْنَ : اور مسکین وَ : اور ابْنَ السَّبِيْلِ : مسافر وَ : اور لَا تُبَذِّرْ : نہ فضول خرچی کرو تَبْذِيْرًا : اندھا دھند
اور رشتہ دار کو اور مسکین کو دو اور مسافر کو اس کا حق دے دو اور مال کو بےجا مت اڑاؤ
1:۔ بخاری نے تاریخ میں ابن منذر نے اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ نے (آیت) ” وات ذا القربی “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا اور اس بار کی تعلیم دی ہے کہ کس طرح کرے جب انسان کے پاس مال ہو اور کس طرح کرنا چاہئے جب مال نہ ہو اور فرمایا۔ (آیت) ” واما تعرضن عنہم البتغاء رحمۃ من ربک ترجوھا “ یعنی رشتہ دار واعزہ اگر تجھ سے سوال کریں اور تیرے پاس کوئی چیز نہ ہو تو اگر تجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق ملنے کا انتظار ہو۔ (آیت) ” فقل لہم قولا میسورا “ تو انشاء اللہ کہہ کر ان سے وعدہ کرلو سفیان نے فرمایا اور نبی کریم ﷺ سے وعدہ بھی ایک قرضہ ہے۔ 2:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وات ذا القربی “ سے مراد ہے کہ آپ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کریں اور مسکینوں کو کھانا کھلائیں اور مسافروں کے ساتھ احسان کریں۔ 3:۔ ابن جریر نے حسین بن علی ؓ سے روایت کیا کہ شام والوں میں سے ایکآدمی کو فرمایا کیا تو نے قرآن پڑھا اس نے کہاں ہاں پھر فرمایا کیا تو نے بنی اسرائیل کے بارے میں نہیں پڑھا (آیت) ” وات ذا القربی “ کیا قرابت سے مراد تم اہل بیت ہو جن کے حق کی ادائیگی کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا علی بن حسین نے کہا ہاں۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ بنوعبدالمطلب کے لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس آتے تھے اور آپ سے سوال کرتے تھے جب اتفاقیہ آپ کے پاس کوئی چیز ہوتی تو آپ ان کو عطا فرما دیتے اور اگر آپ کے پاس کوئی چیز نہ ہوتی تو آپ خاموش ہوجاتے اور ان کو ہاں یا نہ کچھ نہ فرماتے اور قریبی رشتہ داروں سے مراد ہے بنومطلب کے قریبی رشتہ دار۔ 5:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے حسن (رح) سے راویت کیا کہ (آیت) ” وات ذا القربی حقہ والمسکین وابن السبیل “ سے مراد ہے کہ تم ان کے حق کو پورا کرو اگرچہ تھوڑا ہو اگر آپ کے پاس نہ ہو تو فرمایا۔ (آیت) ” فقل لہم قولا میسورا “ یعنی ان سے خیر کی بات کہو۔ 6:۔ بخاری نے الادب المفرد میں اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وات ذا القربی “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے حقوق میں سے جو اہم ترین حق تھا اس کا حکم فرمایا اور انسان کے افضل اعمال کے بارے میں بتایا کہ جب اس کے پاس مال موجود ہو (آیت) ” وات ذا القربی حقہ والمسکین وابن السبیل “ (یعنی راشتہ داروں اور مسکینوں کو اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو) اور آپ کو یہ بھی سکھایا کہ جب آپ کے پاس کوئی چیز نہ ہو تو کیا کہے اسی کو فرمایا (آیت) ” واما تعرضن عنہم البتغاء رحمۃ من ربک ترجوھافقل لہم قولا میسورا “ یعنی ان سے اچھے انداز میں وعدہ کرے گویا کہ اس نے اس کو عطاہی کردیا اور شاید کہ وہ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو پورا ہوجائے گا (آیت) ” ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقل “ (یعنی نہ تو اپنا ہاتھ گردن ہی سے باندھ لو) کہ کوئی چیز ہی نہ دو (آیت) ” ولا تبسطھا کل البسط “ اور نہ ہی بالکل کھول دے کہ کچھ ہی دے دو جو آپ کے پاس ہو (آیت) ” فتقعد ملوما “ کہ پھر آپ ملامت کرے گا جو بعد میں آپ کے پاس آئے گا (جب) آپ کے پاس کسی چیز کو نہ پائے گا (آیت) ” محسورا “ اور جس کو تو عطا کرے گا وہ بھی تجھ سے اصرار کرے گا۔ 7:۔ بخاری نے ادب المفرد میں کلیب بن منفعہ (رح) سے روایت کیا کہ میرے دادا نے عرض کیا یارسول اللہ کس کے ساتھ میں حسن سلوک کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اپنی ماں، اپنے باپ، اپنی بہن، اپنے بھائی اور اپنے دوست جو تیرے قریب ہے سے حسن سلوک کر یہ حق واجب ہے اور رشتہ ہے جس کو جوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 8:۔ احمد بخاری نے ادب میں ابن ماجہ، حاکم طبرانی اور بیہقی نے شعب میں مقدام بن معدیک کرب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ تم وصیت فرماتے ہیں تمہاری ماوں کے بارے میں پھر تمہارے باپوں کے بارے میں پھر تم کو وصیت فرماتے ہیں پھر جو قریبی رشتہ دار ہیں پھر جو اس کے بعد قریبی ہیں۔ اہل و عیال پر خرچ کرنے اجر : 9:۔ بخاری نے ادب میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جو آدمی اپنی جان پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے ثواب کی امید رکھتے ہوئے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس (خرچ کرنے) میں اجر دیں گے اور ان لوگوں سے خرچ کرنا شروع کر جو تیری کفالت میں ہیں اگر بچ جائے تو قریبی رشتہ داروں اور پھر جو اس کے بعد قریبی ہو اگر مزید بچے تو اس کو بھی دے دو ۔ 10:۔ بخاری نے ادب میں اور بیہقی نے شعب میں (اور الفاظ بیہقی کے ہیں) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے نسبوں کی حفاظت کرو اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ تعلق قائم کرو اس لئے کہ رشتہ کے لئے کوئی دوری نہیں جب اسے قریب کیا جائے اگرچہ وہ بہت دور کا رشتہ بھی وہ اور رشتہ کے لئے کوئی قریب نہیں ہوتا جو دور کردیا گیا ہوا اگرچہ وہ قریبی رشتہ ہی کیوں نہ ہو اور قیامت کے دن ہر شخص کے سامنے اس کا رشتہ آئے گا اور اس کے لئے صلہ رحمی (یعنی تعلق جوڑنے) کی گواہی دے گا اگر اس نے رشتہ دار سے صلہ رحمی کی ہوگی اور قطع رحمی کی گواہی دے گا اگر اس نے قطع رحمی کی ہوگی۔ 11:۔ بیہقی نے شعب میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ایک دیہاتی نے آکر عرض کیا یا رسول اللہ ! میں ایک خوشخال آدمی ہوں بلاشبہ میری ماں ہے، باپ ہے، بہن ہے، بھائی ہے چچا ہے اور چچی ہے، خالو ہے اور خالہ ہے، ان میں سے کون میری صلہ رحمی کا حقدار ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تیری ماں، تیرا باپ، تیری بہن، تیری بھائی، پھر جو تیرا زیادہ قریبی ہے اسکے جو زیادہ قریبی ہے۔ 12:۔ احمد، حاکم اور بیہقی نے ابو رمثہ التیمی تیم الرباب ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ خطبہ دیتے ہوئے فرمایا رہے تھے دینے والا ہاتھ بلند ہے وہ تیری ماں کے لئے باپ کے لئے تیری بہن کے لئے اور تیرے بھائی کے لئے ہے پھر جو قریبی ہے پھر جو اسکے قریب ہو۔ 13:۔ طبرانی حاکم شیرازی نے القاب میں اور بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ البتہ آباد کرتے ہیں ایک قوم کے گھروں کو اور ان کے مالوں کی کثرت کردیتا ہے اور ان کی طرف کبھی غضب کی نظر نہیں دیکھا جب سے انکو پیدا فرمایا پوچھا گیا یا رسول اللہ یہ کس وجہ سے ہے ؟ فرمایا ان کی ایک دوسرے سے صلہ رحمی کرنے کی وجہ سے۔ 14:۔ بیہقی، ابن عدی، ابن لال نے مکارم الاخلاق میں اور ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ گھر والے جب آپس میں صلہ رحمی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر رزق کو جاری کردیتے ہیں اور وہ رحمن عزوجل کے سایہ میں ہوتے ہیں۔ 15:۔ بیہقی، ابن جریر اور خرائطی نے مکارم الا اخلاق میں ابو سلمہ بن عبدالرحمن (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا سب سے زیادہ جلدی ثواب جس اطاعت پر ملتا ہے وہ صلہ رحمی ہے یہاں تک کہ کوئی گھر والے البتہ بدکار اور گنہگار ہوتے ہیں پھر بھی انکے مال بڑھتے رہتے ہیں اور ان کی تعداد کثیر ہوتی ہے جب وہ صلہ رحمی کرتے ہیں اور جس پر جلدی سزا ملتی ہے ہو ظلم و زیادتی اور جھوٹی قسم ہے اس سے مال چلا جاتا ہے رحم بانجھ ہوجاتے ہیں۔ (یعنی رحم دلی ختم ہوجاتی ہے) اور گھروں کو نظر بد کے ساتھ چھوڑتی ہے۔ 16:۔ ابن ابی شیبہ نے ثعلبہ بن زھدم (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ دینے والا ہاتھ اونچا ہے اور مانگنے والا ہاتھ نیچا ہے اور ان لوگوں پر خرچ کرنا شروع کر جو تیری کفالت میں ہیں یعنی تیری ماں تیرا باپ تیری بہن تیرا بھائی پھر جو قریبی ہو پھر جو اس کے بعد قریب ہو۔ 17:۔ بزار، ابویعلی، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت (آیت) ” وات ذا القربی “ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ ؓ کو بلایا اور اس کو فدک (کا باغ) عطا فرمایا۔ 18۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ (آیت) ” وات ذا القربی “ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ ؓ کو فدک کی زمین عطا فرمائی۔ 19:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عطا کرنے والے کو حکم دیا کہ وہ کیسے عطا کرے تو (اس بارے میں) اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا (آیت) ” وات ذا القربی حقہ والمسکین وابن السبیل “ یعنی اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں سے (خرچ کرنا) شروع کرے پھر مسکینوں پر اور مسافروں پر اور اس کے بعد دوسروں کو اور فرمایا (آیت) ولا تبذر تبذیرا “ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنا سارا مال بھی نہ دے دے ورنہ تم خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ جاوگے اور فرمایا (آیت) ” ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک “ یعنی تو (مال کو) نہ روک دے اس طرح کہ جو کچھ تیرے پاس ہے (اس میں سے) کسی کو بالکل ہی نہ دو (اور فرمایا) ولا تبسطھا کل البسط “ کہ ہاتھ بالکل ہی کشادہ مت کرو مگر وہ عطا کرو جو تم کو بتایا گیا (آیت) ” واما تعرضن عنہم “ اگر (تنگدستی کی وجہ سے) ان کو دینے سے رک جاؤ (آیت) ” فقل لہم قولا میسورا “ تو ان کو بھلائی کی بات کہو (مثلا) شاید کہ تم کو مل جائے گا امید ہے کہ تم کو مل جائے گا۔ 20:۔ احمد اور حاکم نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) انس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں بہت مال والا اور اہل و عیال والا اور اولاد والا ہوں مجھے بتائیے کہ میں کیسے خرچ کروں اور کیسے کروں ؟ آپ نے فرمایا پہلے تو فرض زکوٰۃ ادا کر کیونکہ وہ پاک کرنے والی ہے (تیرے مال کو) اور تجھے بھی پاک کردے گی اور اپنے قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی کر اور تو پہچان سائل کے حق کو اور پڑوسی اور مسکین کے حق کو اور کہا یا رسول اللہ ! میرے لئے مختصر انداز میں یہ احکام بیان فرمائیں تو آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (آیت) ” وات ذا القربی حقہ والمسکین وابن السبیل “ 21:۔ فریابی، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، بخاری نے ادب میں ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی، حاکم اور بیہقی نے شعب میں (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا تبذر تبذیرا سے ” التبذیر “ مراد ہے کہ ناحق جگہ میں مال خرچ کرنا۔ اسراف وتبذیر ناحق جگہ مال خرچ کرنا ـ: 22:۔ ابن جریر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ہم اصحاب محمد ﷺ کہا کرتے تھے کہ (آیت) ” تبذیرا “ سے مراد ہے ناحق جگہ میں مال خرچ کرنا۔ 23:۔ سعید بن منصور، بخاری نے ادب میں ابن جریر، ابن منذر اور بیہقی نے شعب میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان المبذرین “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مال کو ناحق جگہ میں خرچ کرتے ہیں۔ 24:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا تبذر تبذیرا “ سے مراد ہے کہ اپنا سارا مال مت دو ۔ 25:۔ ابن ابی حاتم نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ فضول خرچی میں یہ ہے کہ انسان ان چیزوں میں سے کھائے پئے اور پہنے جو اس کے پاس نہ ہوں اور جو (خرچہ) کفایت شعاری سے آگے بڑھ جائے تو وہ فضول خرچی ہے۔ 26:۔ بیہقی نے شعب میں روایت کی کہ علی بن ابی طالب ؓ عنہنے فرمایا کہ جو تو نے اپنی جان پر اور اپنے گھر والوں پر خرچ کیا بغیر فضول خرچی کے اور جو تو نے صدقہ کیا سب تیرے لئے باعث اجر ہے اور جو تو نے ریاکاری اور شہرت کے لئے خرچ کیا تو یہ شیطان کا حصہ ہے۔ 27:۔ سعید بن منصور اور ابن منذر نے عطاء خراسانی (رح) سے روایت کیا کہ کچھ لوگ قبیلہ مزینہ میں سے رسول اللہ ﷺ کے پاس سواریاں لینے کے لئے آئے آپ نے فرمایا میرے پاس کوئی سواری کا جانور نہیں ہے کہ جس پر میں تم کو سوار کروں (فرمایا) (آیت) ” تولوا واعینہم تفیض من الدمع حزنا “ (التوبہ : 92) یعنی وہ لوگ لوٹ گئے غمگین ہو کر اور انہوں نے اس بات کو رسول اللہ ﷺ کے غصہ میں گمان کیا (کہ شاید آپ ﷺ نے غصہ کی وجہ سے ہم کو سواریاں نہیں دیں) تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” واما تعرضن عنہم البتغاء رحمۃ من ربک “۔ (اور اگر آپ کو (بوجہ تنگدستی کے) منہ پھیرنا پڑے اور آپ اللہ کے رزق کے انتظار میں ہوں جس کی آپ کو توقع ہے) اور اس میں رحمت سے مراد مال فے ہے۔ 28:۔ ابن جریر نے عطاء خراسانی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ابتغآء “ سے مراد ہے رزق۔ 29:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واما تعرضن عنہم البتغاء رحمۃ من ربک ترجوھا “ سے مراد ہے اللہ کے رزق کا انتظار۔ 30:۔ ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واما تعرضن عنہم “ سے مراد ہے کہ اگر آپ ان کو دینے کے لئے کوئی چیز نہ پائیں (آیت) ” البتغاء رحمۃ من ربک “ تو اپنے رب کے رزق کا انتظار کریں یہ (آیت) ” ان مسکینوں کے بارے میں نازل ہوئی جو نبی کریم ﷺ سے سوال کرتے تھے۔ 31:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فقل لہم قولا میسورا “ کہ ان کو نرم لہجہ میں نرم بات کہو مثلا یوں کہو کہ عنقریب اگر اللہ نے چاہا مال آئے گا (یعنی مجھے مال ملے گا) تو میں ضرور تم کو دوں گا ہم انشاء اللہ مال حاصل کریں گے تو ضرور تم کو دیں گے۔ 32:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فقل لہم قولا میسورا “ یعنی تم ان کو کہو کہ آج کے دن ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اگر ہمارے پاس مال آئے گا تو ہم تمہارے حق پہچان لیں گے (اور تم کو پیش کردیں گے) 33:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فقل لہم قولا میسورا “ سے مراد ہے کہ اچھی بات کہو کہ اللہ تعالیٰ ہم کو اور تم کو (اپنے پاس سے) رزق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ تجھ میں برکت عطا فرمائے۔ 34:۔ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فقل لہم قولا میسورا “ سے مراد ہے کہ تم ان سے وعدہ کرو، سفیان (رح) نے فرمایا اور رسول اللہ ﷺ سے وعدہ دین ہے۔
Top