Ahkam-ul-Quran - Al-Israa : 26
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا
وَاٰتِ : اور دو تم ذَا الْقُرْبٰى : قرابت دار حَقَّهٗ : اس کا حق وَالْمِسْكِيْنَ : اور مسکین وَ : اور ابْنَ السَّبِيْلِ : مسافر وَ : اور لَا تُبَذِّرْ : نہ فضول خرچی کرو تَبْذِيْرًا : اندھا دھند
اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اڑاؤ
رشتہ داروں کے حق کو ادا کیا جائے قول باری ہے (وات ذالقربی حقہ اور رشتہ دار کو اس کا حق دو ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں جس حق کا ذکر ہے وہ مجمل ہے اور اسے بیان و تفصیل کی ضرور ت ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (وفی امرالھم حق للسائل والحزوم ان کے اموال میں سائل اور محروم کا بھی حق ہوتا ہے) اسی طرح حضور ﷺ کا ارشاد ہے (امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوالا الہ الا اللہ فاذا قالوھا عصموا منی دماء ھم دامرالھم الابحقھا مجھے حکم ملا ہے کہ جب تک لوگ کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کرلیں اس وقت تک میں ا ن کے خلاف برسر پیکار ہوں لیکن جب وہ اس کلمہ کا اقرار کرلیں گے تو وہ میرے ہاتھوں سے اپنی جان و مال کو محفوظ کرلیں گے الایہ کہ کسی حق کی بنا پر ان کی جان یا مال پر ہاتھ ڈالا جائے ) آیت میں مذکور حق کے معنی واضح نہیں ہیں بلکہ اس کے معنی شریعت کی طرف سے آمدہ بیان اور وضاحت پر موقوف ہیں۔ اگر قرابت سے حضور ﷺ کے قرابت دار مراد ہوں تو ہوسکتا ہے کہ حق سے مراد ان کا وہ حق ہے جو انہیں مال غنیمت کے خمس میں سے ملتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حق سے صلہ رحمی کا حق مراد ہو۔ آیت زیر بحث میں مذکور رشتہ داروں کی تفسیر میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس اور حسن بصری کا قول ہے کہ اس سے ہر انسا ن کے رشتہ دار مراد ہیں۔ علی بن الحسین سے مروی ہے کہ اس سے حضور ﷺ کے رشتہ دار مراد ہیں۔ ایک قول کے مطابق پہلی تفسیر ہی درست ہے اس لئے کہ والدین کے ذکر کے ساتھ قربات داروں کا ذکر متصلاً ہوا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم تمام لوگوں کے لئے عام ہے اسی طرح اس پر عطف ہونے والا حکم یعنی رشتہ داروں کو ان کا حق دینا بھی تمام لوگوں کے لئے عام ہوگا۔ مسکین اور مسافر کا حق قول باری ہے (والمسکین وابن السبیل اور مسکین کو اور مسافر کو) ہوسکتا ہے کہ اس سے صدقات واجبہ مراد ہوں جن کا ذکر اس قول باری میں آیا ہے (انما الصدقات للفقرآء والمساکین) تا آخر آیت اور یہ بھی ہوسکتا ہے اس سے مراد وہ حق ہے جس کی بوقت ضرورت ادائیگی لازمی ہوتی ہے۔ ابن حمزہ نے شعبی سے اور انہوں نے فاطمہ بنت قیس سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (فی المال حق سوی الزکوۃ مال میں زکوۃ نے علاوہ بھی حق ہوتا ہے) اس موقعہ پر آپ نے یہ آیت بھی تلاوت فرمائی (لیس البر ان تولوادجو ھکم) تا آخر آیت، سفیان نے ابو الزہیم سے انہوں نے حضرت جابر سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے اونٹوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔” ان میں بھی ایک حق ہے۔ “ صحابہ نے اس کی وضاحت چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا (اطراق مخلھا و اعادۃ دلوھا دمنیحۃ سمیعنھا سانڈ کے ساتھ جفتی کی اجازت دینا۔ پانی لانے کے لئے اونٹ مع ڈول عاریت کے طور پر دینا اور پلا ہوا اونٹ سواری کے لئے عطا کرنا۔ فضول خرچی پر پابندی قول باری ہے (ولا تبذر تبذیراً اور فضول خرچی نہ کرو) حضرت عبداللہ مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس نیز قتادہ سے مروی ہے کہ بےجا مال خرچ کرنے کو تبذیر کہتے ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ اگر بلاوجہ ایک مد (ایک پیمانے کا نام جس کی مقدار دو یا اڑھائی رطل ہوتی ہے) بھی صرف کیا جائے تو وہ تبذیر کہلائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جو لوگ تبذیر کرنے والے پر پابندی لگانے کے قائل ہیں وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کیونکہ آیت میں تبذیر کی ممانعت ہے اس لئے امام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تبذیر کرنے والے پر پابندی لگا کر اس کے مال کو ضائع ہونے سے بچا لے اور صرف اسے اتنا ہی دے جس سے اس کا خرچ پورا ہوجائے۔ امام ابوحنیفہ پابندی کے قائل نہیں ہیں اگرچہ متعلقہ شخص تبذیر کرنے والا کیوں نہ ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ایسا شخص مکلف ہوتا ہے اور اسے اپنی ذات کے بارے میں تصرف کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اس لئے اس کا اقرار اور لین دین سب درست قرار دیئے جائیں گے جس طرح حد اور قصاص کے سلسلے میں اس کے اقرار کو درست قرار دیا جاتا ہے حالانکہ حد اور قصاص شبہ کی بنا پر ساقط ہوجاتے ہیں جبکہ اقرار اور عقود، شبہ کی بنا پر ساقط نہیں ہوتے اس لئے ان کا جواز بطریق اولیٰ ہوگا۔ ہم نے قول باری (فان کان الذی علیہ الحق سفیھا اوضیعفاً ) کی تفسیر کے ذیل میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔
Top