Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 26
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا
وَاٰتِ : اور دو تم ذَا الْقُرْبٰى : قرابت دار حَقَّهٗ : اس کا حق وَالْمِسْكِيْنَ : اور مسکین وَ : اور ابْنَ السَّبِيْلِ : مسافر وَ : اور لَا تُبَذِّرْ : نہ فضول خرچی کرو تَبْذِيْرًا : اندھا دھند
اور دے دو قرابت والے کو اس کا حق ، اور مسکین اور مسافر کو ، اور مت اڑاؤ مال کو بیجا ۔
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو اپنی اجتماعی زندگی جن اصولوں پر گزارنے کی تلقین فرمائی ہے ، ان میں سے پہلے دو اصول گذشتہ درس میں بیان ہوچکے ہیں یعنی عبادت صرف اللہ کی اور والدین سے حسن سلوک ، اب آج کے درس میں تیسرا اور چوتھا اصول آرہا ہے تیسرا اصول اللہ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ قرابتداروں ، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرو ۔ اور چوتھا یہ کہ فضول خرچی سے اجتناب کرو۔ (3) (قرابتداروں کا حق) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وات ذالقربی حقہ “۔ اور قرابت والے کو اس کا حق دے دو ، والدین کے حق کے بعد اللہ تعالیٰ نے قرابتداروں کے حق کو فائق رکھا ہے ، قرابتداروں میں قریبی عزیز بھی ہیں ، جیسے بھائی ، بہن ، چچا ، ماموں ، خالہ ، بھانجا وغیرہ اور دور کے قرابتدار بھی چھوٹے بچوں کی پرورش کے قانون میں اللہ نے فرمایا ہے (آیت) ” وعلی الوارث مثل ذلک “۔ (البقرہ 233) یتیم بچے کی پرورش کی ذمہ داری اللہ نے متوفی کے وارث پر ڈالی ہے کہ وہ قریبی عزیز ہے ، بعض مفسرین نے یہ بھی فرمایا ہے یہاں پر قرابت دار سے مراد حضور ﷺ کے قرابتدار ہیں ، یہ بات قرین قیاس نہیں کیونکہ حضور ﷺ کے قرابتداروں کے لیے اللہ نے خمس میں حصہ مقرر کردیا تھا ، (آیت) ” فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربی “۔ الخ الآیۃ (الانفال 41) آپ کے قرابتداروں کی اعانت ضروری تھی کیونکہ وہ آپ کے معاون ہوتے تھے حضور ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے اقرباء کا تعاون تو ختم ہوگیا تاہم بطور مسکین اور محتاج ان کا حصہ بدستور موجود ہے البتہ اس مقام پر قرابتداروں سے مراد عام مسلمانوں کے قریبی عزیز ہیں اور آیت زیر درس کا حکم بھی ہر مومن کے لیے ہے کہ وہ قرابتداروں کا حق ادا کرے ۔ (اخلاقی یا وجوبی حق) عام آئمہ کرام اور مفسرین عظام فرماتے ہیں کہ یہاں پر جس حق کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے ، یہ اخلاقی حق ہے اور اس کی حیثیت نفل کی ہے ، کیونکہ قرضی حق زکوۃ کی صورت میں ادا ہوجاتا ہے ، تاہم امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ قرابتداروں کا یہ حق وجوبی حق ہے ، اگر کسی صاحب استطاعت مومن کے اقربا روز مرہ کے نان ونفقہ سے بھی محتاج ہیں تو اس شخص پر اپنے اقربا روز مرہ کے نان ونفقہ سے بھی محتاج ہیں تو اس شخص پر اپنے اقربا کا نفقہ اٹھانا واجب ہوجاتا ہے جب تک کہ وہ خود مکتفی نہ ہوجائیں ، اسی طرح اگر نابالغ بچے زیر کفالت ہیں تو ان کے سن بلوغت تک پہنچنے تک انکی معاونت ضروری ہے ، یا اگر لڑکی ہے تو اس کی شادی ہونے تک اس کے اخراجات برداشت کیے جائیں ، اگر کوئی عزیز نابینا ہے ، لنگڑا ہے ، خود کمانے کے قابل نہیں ہے ، اس کی کوئی جائداد بھی نہیں ہے تو اس کی کفالت بھی صاحب حیثیت عزیز کے ذمہ واجب ہوگی ، اس نفقہ میں روٹی ، کپڑا ، رہائش اور دیگر ضروریات زندگی شامل ہیں ۔ (زکوۃ کے علاوہ حقوق) قرآن پاک سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے مستحقین کے لیے زکوۃ کے علاوہ بھی کچھ حقوق رکھے ہیں مثلا سورة المعارج میں ہے (آیت) ” والذین فی اموالھم حق معلوم ، للسائل والمحروم “۔ دولت مند مسلمانوں کے مال میں اللہ ان محتاجوں اور محروموں کا حق بھی رکھا ہے جو وسائل معیشت سے محروم ہیں ، اللہ کا یہ بھی فرمان ہے (آیت) ” واتی المال علی حبہ ذوی القربی والیتمی والمسکین وابن السبیل ، والسآئلین وفی الرقاب “۔ (البقرہ 177) ایماندار لوگوں کا شیوہ یہ ہے کہ وہ اپنے مال کو خوشی سے اقرباء یتامی ، مساکین ، مسافروں سائلین اور قیدیوں پر خرچ کرتے ہیں ، یہ خرچ زکوۃ کے علاوہ ہے کیونکہ زکوۃ کی ادائیگی کا حکم اس سے متصل علیحدہ دے دیا گیا ہے (آیت) ” اقام الصلوۃ واتی الزکوۃ “۔ کہ ایماندار لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ بھی ادا کرتے ہیں بہرحالی یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے ” ان فی المال حقا سوی الزکوۃ “ کہ اللہ نے زکوۃ کے علاوہ بھی محتاجوں کے حقوق رکھے ہیں ۔ بہرحال یہ نفلی یا اخلاقی حقوق ہیں ، حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اونٹوں کی زکوۃ ادا کرو ، جو ایسا نہیں کرے گا قیامت والے دن یہی اونٹ اس کو روندیں گے اور اس کو کاٹیں گے اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا ” ومن حقھا حلبھا یوم وردھا “۔ یعنی اونٹوں میں ایک حق یہ بھی ہے کہ جس دن تم انہیں پانی پلانے کے لیے گھاٹ پر لے جاؤ تو وہاں پر موجود غرباء و مساکین کو اونٹنیوں کا دودھ دوھ کر پلاؤ ، عرب میں عام طور پر پانچویں دن جانوروں کو پانی پلانے کے لیے لے جایا جاتا تھا اور اس موقع پر غریب لوگ بھی جمع ہوتے تھے ، فرمایا ان کا حق بھی ادا کرو جو کہ زکوۃ کے علاوہ ہے اس طرح اگر کسی کے پاس سواری کے لیے گھوڑا ، گدھا یا خچر ہے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ ان کی پشت میں بھی اللہ کے مستحقین کا حق رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ بوقت ضرورت کسی محتاج کو سواری کے لیے دے دیا جائے سواری کے جانوروں کا دوسرا حق ان کی گردن پر ہے اور اس سے مراد زکوۃ ہے جو نصاب کے مطابق ادا کی جائیگی سواری کے جانوروں پر قیاس کرتے ہوئے سواری کی دوسری اشیاء سائیکل ، موٹر سائیکل ، گاڑی وغیرہ بھی اس مد میں آتی ہیں ان میں بھی اللہ نے یہ رکھا ہے کہ کسی ضرورت مند کو سواری کے لیے دی جائے ۔ (مساکین اور مسافروں کا حق) اللہ نے پہلا حق قرابتداروں کا بیان فرمایا ، دوسرے نمبر پر فرمایا (آیت) ” والمسکین “ مسکینوں کو بھی ان کا حق ادا کرو ، مسکین اور فقیر میں تھوڑا سا فرق ہے مسکین وہ شخص ہے کہ جس کے پاس کچھ نہ کچھ موجود ہو مگر اس سے اس کی جائز ضروریات بھی پوری نہ ہوتی ہوں ، مثلا کوئی شخص کثیر العیال ہے ، محنت مزدوری کرتا ہے مگر اس سے بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں ، مکان کا کرایہ ادا کرنا مشکل ہوتا ہے یا بچوں کو دودھ میسر نہیں ، بچے تعلیم کے قابل ہیں مگر اس کے لیے کم از کم اخراجات کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا ، ایسے آدمی کی اعانت بھی ضروری ہے ۔ فرمایا وابن السبیل “۔ اور مسافروں کو بھی اس کا حق ادا کرو جو آدمی سفر کے دوران کسی مشکل میں پھنس جاتا ہے ، وہ اگرچہ مسکین نہیں مگر حالات کی مجبوری کی وجہ سے اس کی معاونت بھی ضروری ہے ، یہ اتنا ضروری ہے کہ اللہ نے مسافر کے لیے زکوۃ میں بھی حصہ رکھا ہے کہ بوقت ضرورت اس کی مدد زکوۃ کے مال سے بھی کی جاسکتی ہے ، اگر یہ تمام حقوق ادا کیے جائیں تو معاشرے میں خرابی پیدا نہ ہو ، عدم ادائیگی حقوق ہی فتنوں کی بنیاد بنتی ہے ، اس کی وجہ سے حسد ، بغاوت اور اشتراکیت جنم لیتی ہے جب صاحب مال اور اپنے مال اپنے مال کے حقوق ادا نہیں کرتے ، تو مستحقین کو سخت تکلیف اٹھانا پڑتی ہے جس کی وجہ سے ان میں برے اخلاق جنم لیتے ہیں ، ان میں حسد کی آگ اس حد تک بھڑک اٹھتی ہے کہ اگر ہمارے پاس کچھ نہیں تو ان کے پاس بھی کچھ نہیں رہنا چاہئے جس کا نتیجہ اشتراکیت کے حق میں نکلتا ہے ایجی ٹیشن شروع ہوجاتے ہیں اور دنیا میں انقلاب انقلاب کی نعرہ بازی شروع ہوجاتی ہے اگر سرمایہ دارانہ اور اشتراکی دونوں نظام اسلامی نظام معیشت سے متصادم ہیں مگر وقتی طور پر لوگوں کا رجحان کسی ایک طرف ہوجاتا ہے اور پھر جب اس کی قباحتیں نظر آتی ہیں تو دوسری طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں اصل بات حقوق کی ادائیگی ہے جو اسلام پیش کرتا ہے ، اگر ہر حقدار کو اس کا حق ملتا رہے تو امیر و غریب کی خلیج کبھی وسیع نہ ہو بلکہ ہر شخص مطمئن ہو اور اپنے اپنے دائرہ کار میں محنت کرکے روزی کمائے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ زکوۃ کی ادائیگی دو طرح سے مفید ہے ، پہلی بات یہ ہے کہ ہر سال زکوۃ ادا کرنے سے انسان کے دل سے بخل کا مادہ دور ہوتا ہے اور اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ محتاجوں کی ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں ۔ (4) (اسراف وتبذیر) قرابتداروں ، مسکینوں اور مسافروں کے حقوق کی ادائیگی تیسرا اصول تھا اب چوتھا اصول یہ بیان فرمایا (آیت) ” ولا تبذر تبذیرا “۔ اور مال کو بیجا مت اڑاؤ ۔ فضول خرچی نہ کرو کیونکہ (آیت) ” ان المبذرین کانوا اخوان الشیطین “۔ فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ، قرآن پاک میں فضول خرچی کے لیے دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ایک اسراف اور دوسرا تبذیر ، بعض مفسرین دونوں الفاظ کو بالکل ہم معنی قرار دیتے ہیں جبکہ بعض ان میں معمولی سا فرق بتاتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ کسی جائے ضرورت پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے جیسے فرمایا (آیت) ” کلوا واشربوا ولا تسرفوا “۔ (الاعراف 31) کھاؤ پیو ، مگر اسراف نہ کرو ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اسراف اور مکروہ تحریمی ہے حدیث شریف میں لباس کے متعلق بھی آتا ہے ” البسوما شئتم مالم یکن مخیلۃ ولا سرفا “۔ جس قسم کا لباس چاہو پہنو ، مگر اس میں نہ تو تکبر کا اظہار ہو اور نہ اسراف ہو ، شاہ عبدالقادر (رح) اسکی مثال یہ دیتے ہیں کہ مرد ریشمی لباس پہننے لگے یا ایسی وضع قطع کا لباس ہو جو تقوی اور پردے کے اعتبار سے مامعقول ہو ۔ دوسری چیز تبذیر ہے یعنی بالکل بےمحل خرچ کرنا جس کا کوئی جواز نہ ہو ، جوا ، شراب ، بدکاری ، لہو لعب ، فوٹو گرافی ، قبروں پر گنبد بنانا ان کو پختہ کرنا ، ان پر چراغاں کرنا ، بعض مواقع پر آتش بازی کرنا سب تبذیر میں شامل ہیں اسی طرح مذہبی تقریبات کے نام پر قبروں پر عرج منانا ، چادریں چڑھانا نذورنیاز دینا ، میلاد کی جھنڈیاں لگانا گیٹ بنانا ، قمقمے روشن کرنا بالکل بےمحل اخراجات ہیں اور تبذیر میں داخل ہیں ، عام شہری زندگی میں امیروں ، وزیروں کی آمد پر استقبالیہ محرابیں بنانا ، بڑے بڑے سٹیج تیار کرنا ، بینڈ باجے کا انتظام کرنا ، پرتکلف دعوتیں دینا قطعا جائز نہیں اور یہی تبذیر ہے ، مذہبی اور غیر مذہبی رسومات باطلہ کے رد میں حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) نے ” اصلاح الرسوم “ کے نام سے کتاب لکھی تھی جس میں انہوں واضح کیا ہے کہ ہمارے ملک میں کن کن تباہ کن رسومات کو پورا کیا جاتا ہے ، یہ ایسی چیزیں ہیں جو اسلامی تعلیمات قرآن وسنت ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور سلف صالحین کے طریقے کے بالکل خلاف ہیں ، فقہائے کرام انہیں مکروہ تحریمی میں شمار کرتے ہیں ، اسی طرح حضرت مولانا شیخ الحدیث کی کتاب ” راہ سنت “ بھی ہمارے دور کی بہترین کتاب ہے جس شادی اور غمی کی رسومات باطلہ کی تردید کی گئی ہے ان میں سے بعض اخراجات اسراف کی مد میں آتے ہیں اور بعض تبذیر میں مگر ہیں سارے کے سارے ناجائز اور حرام ۔ (آمدوخرچ پر پابندی) شریعت نے آمد وخرچ دونوں چیزوں پر پابندی عاید کی ہے حلال اور جائز طریقے سے کماؤ اور حلال اور جائز طریقے پر خرچ کرو ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” کلوا مما فی الارض حللا طیبا “۔ (البقرہ : 167) زمین میں سے حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ ، نہ حرام کی کمائی کرو اور نہ اسے استعمال کرو اللہ نے یہ بھی فرمایا (آیت) ” ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “۔ (البقرہ : 188) باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال مت کھاؤ ، حلال راستے سے کماؤ اور صرف کرتے وقت اس کے فرضی ، واجبی اور نفلی حقوق ادا کرو ، اقرباء پڑوسیوں ، غرباء مساکین اور یتیموں کا حق ادا کرو ، کسی ناجائز کام میں مال خرچ نہ کرو ، کسی باطل رسم و رواج میں مال خرچ کرنا حرام ہے ، اگر مستحقین کے حقوق ادا کرنے کی بجائے رسومات باطلہ پر بےدریغ روپیہ صرف کرو گے تو نچلے طبقے عسرت میں چلے جائیں گے اور یہ تمہارے لیے وبال جان ہوگا ولیمہ ایک سنت ہے ، مگر یہ بھی حسب استطاعت ہونا چاہئے ، نہ تو اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرے اور نہ ہی نام ونمود کی خاطر بڑھ چڑھ کر اسراف کرے سلف صالحین یہ سنت سادہ طریقے سے انجام دیتے رہے مگر اب تو امارت کی دوڑ لگی ہوئی ہے ، ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر نام پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس طرح کم حیثیت لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے آج کے دور میں سب سے بڑی لعنت کھڑے ہو کر کھانا ہے جو کہ اب وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے ، اس کی بجائے جائز امور میں خرچ کرو ، غریبوں محتاجوں کی اعانت کرو ، ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دو تبلیغ دین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو ، کرنے کے کام تو یہ ہیں ، نہ کہ برداری کی خاطر اپنی عاقبت کو تباہ کرلو ۔ (شیطانوں کے بھائی) فرمایا بےجا مال مت اڑاؤ کیونکہ فضول شیطانوں کے بھائی ہیں امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ فضول خرچ دو طرح سے شیاطین کے بھائی ہیں اول یہ ہے کہ وہ شیطان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں وہ اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کی مرضیات کے برخلاف شیاطین کی مرضیات پر خرچ کرتے ہیں ، لہذا شیطان کے بھائی ہیں اور بھائی بندی کی دوسری وجہ یہ ہے یہ کہ جب جزائے عمل کا وقت آئے گا تو فضول خرچ لوگوں کو رسیوں سے باندھ کر شیطانوں کے ساتھ ہی جہنم میں پھینک دیا جائے گا ، اور اس بات میں تو کوئی شک نہیں (آیت) ” وکان الشیطن لربہ کفورا “۔ کہ شیطان اپنے پروردگار کا ناشکرا ہے ، اللہ نے اس کو طاقت عطا کی مگر اس نے اس طاقت کو اللہ کی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کی بجائے اسے غلط طریقے سے استعمال کیا اور اس طرح خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی ناقدری کی ، اور ناشکر گزار بن گیا ، بیجامال اڑانے والوں نے بھی اللہ کی اس نعمت کی قدر نہ کی اور مال کو فضول کاموں میں اڑا دیا ، لہذا یہ بھی شیطان کے بھائی ہیں جس کا راستہ انہوں نے اختیار کیا ، بہرحال خدا تعالیٰ کے عطا کردہ مال کو ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا یا بےمحل خرچ کرنا اسراف وتبذیر ہے اور یہ شیطان کے نقش قدم پر چل کر اس کا بھائی بننا ہے ۔
Top