Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 26
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا
وَاٰتِ
: اور دو تم
ذَا الْقُرْبٰى
: قرابت دار
حَقَّهٗ
: اس کا حق
وَالْمِسْكِيْنَ
: اور مسکین
وَ
: اور
ابْنَ السَّبِيْلِ
: مسافر
وَ
: اور
لَا تُبَذِّرْ
: نہ فضول خرچی کرو
تَبْذِيْرًا
: اندھا دھند
اور دے دو قرابت والے کو اس کا حق ، اور مسکین اور مسافر کو ، اور مت اڑاؤ مال کو بیجا ۔
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو اپنی اجتماعی زندگی جن اصولوں پر گزارنے کی تلقین فرمائی ہے ، ان میں سے پہلے دو اصول گذشتہ درس میں بیان ہوچکے ہیں یعنی عبادت صرف اللہ کی اور والدین سے حسن سلوک ، اب آج کے درس میں تیسرا اور چوتھا اصول آرہا ہے تیسرا اصول اللہ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ قرابتداروں ، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرو ۔ اور چوتھا یہ کہ فضول خرچی سے اجتناب کرو۔ (3) (قرابتداروں کا حق) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وات ذالقربی حقہ “۔ اور قرابت والے کو اس کا حق دے دو ، والدین کے حق کے بعد اللہ تعالیٰ نے قرابتداروں کے حق کو فائق رکھا ہے ، قرابتداروں میں قریبی عزیز بھی ہیں ، جیسے بھائی ، بہن ، چچا ، ماموں ، خالہ ، بھانجا وغیرہ اور دور کے قرابتدار بھی چھوٹے بچوں کی پرورش کے قانون میں اللہ نے فرمایا ہے (آیت) ” وعلی الوارث مثل ذلک “۔ (البقرہ 233) یتیم بچے کی پرورش کی ذمہ داری اللہ نے متوفی کے وارث پر ڈالی ہے کہ وہ قریبی عزیز ہے ، بعض مفسرین نے یہ بھی فرمایا ہے یہاں پر قرابت دار سے مراد حضور ﷺ کے قرابتدار ہیں ، یہ بات قرین قیاس نہیں کیونکہ حضور ﷺ کے قرابتداروں کے لیے اللہ نے خمس میں حصہ مقرر کردیا تھا ، (آیت) ” فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربی “۔ الخ الآیۃ (الانفال 41) آپ کے قرابتداروں کی اعانت ضروری تھی کیونکہ وہ آپ کے معاون ہوتے تھے حضور ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے اقرباء کا تعاون تو ختم ہوگیا تاہم بطور مسکین اور محتاج ان کا حصہ بدستور موجود ہے البتہ اس مقام پر قرابتداروں سے مراد عام مسلمانوں کے قریبی عزیز ہیں اور آیت زیر درس کا حکم بھی ہر مومن کے لیے ہے کہ وہ قرابتداروں کا حق ادا کرے ۔ (اخلاقی یا وجوبی حق) عام آئمہ کرام اور مفسرین عظام فرماتے ہیں کہ یہاں پر جس حق کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے ، یہ اخلاقی حق ہے اور اس کی حیثیت نفل کی ہے ، کیونکہ قرضی حق زکوۃ کی صورت میں ادا ہوجاتا ہے ، تاہم امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ قرابتداروں کا یہ حق وجوبی حق ہے ، اگر کسی صاحب استطاعت مومن کے اقربا روز مرہ کے نان ونفقہ سے بھی محتاج ہیں تو اس شخص پر اپنے اقربا روز مرہ کے نان ونفقہ سے بھی محتاج ہیں تو اس شخص پر اپنے اقربا کا نفقہ اٹھانا واجب ہوجاتا ہے جب تک کہ وہ خود مکتفی نہ ہوجائیں ، اسی طرح اگر نابالغ بچے زیر کفالت ہیں تو ان کے سن بلوغت تک پہنچنے تک انکی معاونت ضروری ہے ، یا اگر لڑکی ہے تو اس کی شادی ہونے تک اس کے اخراجات برداشت کیے جائیں ، اگر کوئی عزیز نابینا ہے ، لنگڑا ہے ، خود کمانے کے قابل نہیں ہے ، اس کی کوئی جائداد بھی نہیں ہے تو اس کی کفالت بھی صاحب حیثیت عزیز کے ذمہ واجب ہوگی ، اس نفقہ میں روٹی ، کپڑا ، رہائش اور دیگر ضروریات زندگی شامل ہیں ۔ (زکوۃ کے علاوہ حقوق) قرآن پاک سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے مستحقین کے لیے زکوۃ کے علاوہ بھی کچھ حقوق رکھے ہیں مثلا سورة المعارج میں ہے (آیت) ” والذین فی اموالھم حق معلوم ، للسائل والمحروم “۔ دولت مند مسلمانوں کے مال میں اللہ ان محتاجوں اور محروموں کا حق بھی رکھا ہے جو وسائل معیشت سے محروم ہیں ، اللہ کا یہ بھی فرمان ہے (آیت) ” واتی المال علی حبہ ذوی القربی والیتمی والمسکین وابن السبیل ، والسآئلین وفی الرقاب “۔ (البقرہ 177) ایماندار لوگوں کا شیوہ یہ ہے کہ وہ اپنے مال کو خوشی سے اقرباء یتامی ، مساکین ، مسافروں سائلین اور قیدیوں پر خرچ کرتے ہیں ، یہ خرچ زکوۃ کے علاوہ ہے کیونکہ زکوۃ کی ادائیگی کا حکم اس سے متصل علیحدہ دے دیا گیا ہے (آیت) ” اقام الصلوۃ واتی الزکوۃ “۔ کہ ایماندار لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ بھی ادا کرتے ہیں بہرحالی یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے ” ان فی المال حقا سوی الزکوۃ “ کہ اللہ نے زکوۃ کے علاوہ بھی محتاجوں کے حقوق رکھے ہیں ۔ بہرحال یہ نفلی یا اخلاقی حقوق ہیں ، حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اونٹوں کی زکوۃ ادا کرو ، جو ایسا نہیں کرے گا قیامت والے دن یہی اونٹ اس کو روندیں گے اور اس کو کاٹیں گے اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا ” ومن حقھا حلبھا یوم وردھا “۔ یعنی اونٹوں میں ایک حق یہ بھی ہے کہ جس دن تم انہیں پانی پلانے کے لیے گھاٹ پر لے جاؤ تو وہاں پر موجود غرباء و مساکین کو اونٹنیوں کا دودھ دوھ کر پلاؤ ، عرب میں عام طور پر پانچویں دن جانوروں کو پانی پلانے کے لیے لے جایا جاتا تھا اور اس موقع پر غریب لوگ بھی جمع ہوتے تھے ، فرمایا ان کا حق بھی ادا کرو جو کہ زکوۃ کے علاوہ ہے اس طرح اگر کسی کے پاس سواری کے لیے گھوڑا ، گدھا یا خچر ہے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ ان کی پشت میں بھی اللہ کے مستحقین کا حق رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ بوقت ضرورت کسی محتاج کو سواری کے لیے دے دیا جائے سواری کے جانوروں کا دوسرا حق ان کی گردن پر ہے اور اس سے مراد زکوۃ ہے جو نصاب کے مطابق ادا کی جائیگی سواری کے جانوروں پر قیاس کرتے ہوئے سواری کی دوسری اشیاء سائیکل ، موٹر سائیکل ، گاڑی وغیرہ بھی اس مد میں آتی ہیں ان میں بھی اللہ نے یہ رکھا ہے کہ کسی ضرورت مند کو سواری کے لیے دی جائے ۔ (مساکین اور مسافروں کا حق) اللہ نے پہلا حق قرابتداروں کا بیان فرمایا ، دوسرے نمبر پر فرمایا (آیت) ” والمسکین “ مسکینوں کو بھی ان کا حق ادا کرو ، مسکین اور فقیر میں تھوڑا سا فرق ہے مسکین وہ شخص ہے کہ جس کے پاس کچھ نہ کچھ موجود ہو مگر اس سے اس کی جائز ضروریات بھی پوری نہ ہوتی ہوں ، مثلا کوئی شخص کثیر العیال ہے ، محنت مزدوری کرتا ہے مگر اس سے بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں ، مکان کا کرایہ ادا کرنا مشکل ہوتا ہے یا بچوں کو دودھ میسر نہیں ، بچے تعلیم کے قابل ہیں مگر اس کے لیے کم از کم اخراجات کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا ، ایسے آدمی کی اعانت بھی ضروری ہے ۔ فرمایا وابن السبیل “۔ اور مسافروں کو بھی اس کا حق ادا کرو جو آدمی سفر کے دوران کسی مشکل میں پھنس جاتا ہے ، وہ اگرچہ مسکین نہیں مگر حالات کی مجبوری کی وجہ سے اس کی معاونت بھی ضروری ہے ، یہ اتنا ضروری ہے کہ اللہ نے مسافر کے لیے زکوۃ میں بھی حصہ رکھا ہے کہ بوقت ضرورت اس کی مدد زکوۃ کے مال سے بھی کی جاسکتی ہے ، اگر یہ تمام حقوق ادا کیے جائیں تو معاشرے میں خرابی پیدا نہ ہو ، عدم ادائیگی حقوق ہی فتنوں کی بنیاد بنتی ہے ، اس کی وجہ سے حسد ، بغاوت اور اشتراکیت جنم لیتی ہے جب صاحب مال اور اپنے مال اپنے مال کے حقوق ادا نہیں کرتے ، تو مستحقین کو سخت تکلیف اٹھانا پڑتی ہے جس کی وجہ سے ان میں برے اخلاق جنم لیتے ہیں ، ان میں حسد کی آگ اس حد تک بھڑک اٹھتی ہے کہ اگر ہمارے پاس کچھ نہیں تو ان کے پاس بھی کچھ نہیں رہنا چاہئے جس کا نتیجہ اشتراکیت کے حق میں نکلتا ہے ایجی ٹیشن شروع ہوجاتے ہیں اور دنیا میں انقلاب انقلاب کی نعرہ بازی شروع ہوجاتی ہے اگر سرمایہ دارانہ اور اشتراکی دونوں نظام اسلامی نظام معیشت سے متصادم ہیں مگر وقتی طور پر لوگوں کا رجحان کسی ایک طرف ہوجاتا ہے اور پھر جب اس کی قباحتیں نظر آتی ہیں تو دوسری طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں اصل بات حقوق کی ادائیگی ہے جو اسلام پیش کرتا ہے ، اگر ہر حقدار کو اس کا حق ملتا رہے تو امیر و غریب کی خلیج کبھی وسیع نہ ہو بلکہ ہر شخص مطمئن ہو اور اپنے اپنے دائرہ کار میں محنت کرکے روزی کمائے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ زکوۃ کی ادائیگی دو طرح سے مفید ہے ، پہلی بات یہ ہے کہ ہر سال زکوۃ ادا کرنے سے انسان کے دل سے بخل کا مادہ دور ہوتا ہے اور اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ محتاجوں کی ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں ۔ (4) (اسراف وتبذیر) قرابتداروں ، مسکینوں اور مسافروں کے حقوق کی ادائیگی تیسرا اصول تھا اب چوتھا اصول یہ بیان فرمایا (آیت) ” ولا تبذر تبذیرا “۔ اور مال کو بیجا مت اڑاؤ ۔ فضول خرچی نہ کرو کیونکہ (آیت) ” ان المبذرین کانوا اخوان الشیطین “۔ فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ، قرآن پاک میں فضول خرچی کے لیے دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ایک اسراف اور دوسرا تبذیر ، بعض مفسرین دونوں الفاظ کو بالکل ہم معنی قرار دیتے ہیں جبکہ بعض ان میں معمولی سا فرق بتاتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ کسی جائے ضرورت پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے جیسے فرمایا (آیت) ” کلوا واشربوا ولا تسرفوا “۔ (الاعراف 31) کھاؤ پیو ، مگر اسراف نہ کرو ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اسراف اور مکروہ تحریمی ہے حدیث شریف میں لباس کے متعلق بھی آتا ہے ” البسوما شئتم مالم یکن مخیلۃ ولا سرفا “۔ جس قسم کا لباس چاہو پہنو ، مگر اس میں نہ تو تکبر کا اظہار ہو اور نہ اسراف ہو ، شاہ عبدالقادر (رح) اسکی مثال یہ دیتے ہیں کہ مرد ریشمی لباس پہننے لگے یا ایسی وضع قطع کا لباس ہو جو تقوی اور پردے کے اعتبار سے مامعقول ہو ۔ دوسری چیز تبذیر ہے یعنی بالکل بےمحل خرچ کرنا جس کا کوئی جواز نہ ہو ، جوا ، شراب ، بدکاری ، لہو لعب ، فوٹو گرافی ، قبروں پر گنبد بنانا ان کو پختہ کرنا ، ان پر چراغاں کرنا ، بعض مواقع پر آتش بازی کرنا سب تبذیر میں شامل ہیں اسی طرح مذہبی تقریبات کے نام پر قبروں پر عرج منانا ، چادریں چڑھانا نذورنیاز دینا ، میلاد کی جھنڈیاں لگانا گیٹ بنانا ، قمقمے روشن کرنا بالکل بےمحل اخراجات ہیں اور تبذیر میں داخل ہیں ، عام شہری زندگی میں امیروں ، وزیروں کی آمد پر استقبالیہ محرابیں بنانا ، بڑے بڑے سٹیج تیار کرنا ، بینڈ باجے کا انتظام کرنا ، پرتکلف دعوتیں دینا قطعا جائز نہیں اور یہی تبذیر ہے ، مذہبی اور غیر مذہبی رسومات باطلہ کے رد میں حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) نے ” اصلاح الرسوم “ کے نام سے کتاب لکھی تھی جس میں انہوں واضح کیا ہے کہ ہمارے ملک میں کن کن تباہ کن رسومات کو پورا کیا جاتا ہے ، یہ ایسی چیزیں ہیں جو اسلامی تعلیمات قرآن وسنت ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور سلف صالحین کے طریقے کے بالکل خلاف ہیں ، فقہائے کرام انہیں مکروہ تحریمی میں شمار کرتے ہیں ، اسی طرح حضرت مولانا شیخ الحدیث کی کتاب ” راہ سنت “ بھی ہمارے دور کی بہترین کتاب ہے جس شادی اور غمی کی رسومات باطلہ کی تردید کی گئی ہے ان میں سے بعض اخراجات اسراف کی مد میں آتے ہیں اور بعض تبذیر میں مگر ہیں سارے کے سارے ناجائز اور حرام ۔ (آمدوخرچ پر پابندی) شریعت نے آمد وخرچ دونوں چیزوں پر پابندی عاید کی ہے حلال اور جائز طریقے سے کماؤ اور حلال اور جائز طریقے پر خرچ کرو ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” کلوا مما فی الارض حللا طیبا “۔ (البقرہ : 167) زمین میں سے حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ ، نہ حرام کی کمائی کرو اور نہ اسے استعمال کرو اللہ نے یہ بھی فرمایا (آیت) ” ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “۔ (البقرہ : 188) باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال مت کھاؤ ، حلال راستے سے کماؤ اور صرف کرتے وقت اس کے فرضی ، واجبی اور نفلی حقوق ادا کرو ، اقرباء پڑوسیوں ، غرباء مساکین اور یتیموں کا حق ادا کرو ، کسی ناجائز کام میں مال خرچ نہ کرو ، کسی باطل رسم و رواج میں مال خرچ کرنا حرام ہے ، اگر مستحقین کے حقوق ادا کرنے کی بجائے رسومات باطلہ پر بےدریغ روپیہ صرف کرو گے تو نچلے طبقے عسرت میں چلے جائیں گے اور یہ تمہارے لیے وبال جان ہوگا ولیمہ ایک سنت ہے ، مگر یہ بھی حسب استطاعت ہونا چاہئے ، نہ تو اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرے اور نہ ہی نام ونمود کی خاطر بڑھ چڑھ کر اسراف کرے سلف صالحین یہ سنت سادہ طریقے سے انجام دیتے رہے مگر اب تو امارت کی دوڑ لگی ہوئی ہے ، ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر نام پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس طرح کم حیثیت لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے آج کے دور میں سب سے بڑی لعنت کھڑے ہو کر کھانا ہے جو کہ اب وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے ، اس کی بجائے جائز امور میں خرچ کرو ، غریبوں محتاجوں کی اعانت کرو ، ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دو تبلیغ دین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو ، کرنے کے کام تو یہ ہیں ، نہ کہ برداری کی خاطر اپنی عاقبت کو تباہ کرلو ۔ (شیطانوں کے بھائی) فرمایا بےجا مال مت اڑاؤ کیونکہ فضول شیطانوں کے بھائی ہیں امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ فضول خرچ دو طرح سے شیاطین کے بھائی ہیں اول یہ ہے کہ وہ شیطان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں وہ اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کی مرضیات کے برخلاف شیاطین کی مرضیات پر خرچ کرتے ہیں ، لہذا شیطان کے بھائی ہیں اور بھائی بندی کی دوسری وجہ یہ ہے یہ کہ جب جزائے عمل کا وقت آئے گا تو فضول خرچ لوگوں کو رسیوں سے باندھ کر شیطانوں کے ساتھ ہی جہنم میں پھینک دیا جائے گا ، اور اس بات میں تو کوئی شک نہیں (آیت) ” وکان الشیطن لربہ کفورا “۔ کہ شیطان اپنے پروردگار کا ناشکرا ہے ، اللہ نے اس کو طاقت عطا کی مگر اس نے اس طاقت کو اللہ کی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کی بجائے اسے غلط طریقے سے استعمال کیا اور اس طرح خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی ناقدری کی ، اور ناشکر گزار بن گیا ، بیجامال اڑانے والوں نے بھی اللہ کی اس نعمت کی قدر نہ کی اور مال کو فضول کاموں میں اڑا دیا ، لہذا یہ بھی شیطان کے بھائی ہیں جس کا راستہ انہوں نے اختیار کیا ، بہرحال خدا تعالیٰ کے عطا کردہ مال کو ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا یا بےمحل خرچ کرنا اسراف وتبذیر ہے اور یہ شیطان کے نقش قدم پر چل کر اس کا بھائی بننا ہے ۔
Top