Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 26
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا
وَاٰتِ : اور دو تم ذَا الْقُرْبٰى : قرابت دار حَقَّهٗ : اس کا حق وَالْمِسْكِيْنَ : اور مسکین وَ : اور ابْنَ السَّبِيْلِ : مسافر وَ : اور لَا تُبَذِّرْ : نہ فضول خرچی کرو تَبْذِيْرًا : اندھا دھند
اور تم قرابت دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی اور مال کو اللّے تللّے نہ اڑاؤ
تفسیر آیات 26 تا 27: وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا۔ اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا۔ قرابت دار، مسکین اور مسافر کا حق : عدل اور احسان کے حکم کے بعد قرآنی اوامر کی تیسری اساسی چیز ایتائے ذی القربی یعنی عزیزوں اور قرابت داروں کی خدمت ہے۔ اب یہ اس کا بیان ہورہا ہے۔ فرمایا کہ قرابت دار، مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر صاحب مال کے مال میں اس کے قرابت داروں، مسکینوں اور مسافروں کا بھی حق ہے۔ یہاں لفظ " حق " کا استعمال اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ محض اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اس کی ذمہ داری حق واجب کی ہے جس کی ادائیگی صاحب مال پر لازمی ہے۔ اگر کوئی شخص اس حق کو ادا نہ کرے گا تو وہ عنداللہ غصب حقوق کا مجرم ٹھہرے گا۔ قرابت دار کے بعد دوسرا درجہ مسکین کا ہے۔ قرابت دار تو مجرد قرابت کی بنا پر حق دار بن جاتا ہے لیکن مسکین کو اس کی مسکینی کی حقدار بناتی ہے۔ اگر کوئی قرابت دار مسکین بھی ہو تو اس کا حق دہرا ہوجائے گا۔ قرابت دار کے بعد معاً مسکین کا ذکر اسلامی معاشرے میں مسکین کے درجے اور مرتبے کو ظاہر کرتا ہے۔ مسکین کے بعد ابن السبیل یعنی مسافر کا حق ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ مسافر صرف مسافر ہونے کی بنا پر حقدار بنتا ہے، اس کا مسکین ہونا ضروری نہیں ہے، ورنہ اس کے علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس امر میں شبہ نہیں ہے کہ حالت سفر بجائے خود ایسی چیز ہے جو عام حالات میں آدمی کو دوسروں کی مدد کا محتاج بنا دیتی ہے اگرچہ وہ فقہی مفہوم میں مسکین کے حکم میں نہ آتا ہو۔ اعتدالی و کفایت شعاری کی ہدایت : وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا ظاہر ہے کہ جب ہر صاحب مال کے مال میں دوسروں کے بھی حقوق ہوئے تو اس کو اللّے تلّلے خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہوسکتی۔ پھر تو اس کے لیے صحیح رویہ یہی ہوسکتا ہے کہ احتیاط و اعتدال اور کفایت شعاری کے ساتھ اپنی جائز ضروریات پر خرچ کرے اور بقیہ مال کے معاملے میں وہ اپنے آپ کو دوسرے حق داروں کا امین سمجھے، اور اس امانت کو نہایت احتیاط کے ساتھ ادا کرے۔ جو شخص اپنی ضروریات کے معاملے میں محتاط اور کفایت شعار نہیں ہوگا اس کو اپنے ہی شوقت پورے کرنے سے فرصت نہیں ہوگی تو وہ دوسروں کے حقوق کہاں سے ادا کرپائے گا۔ اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ۔۔۔ الایۃ، فرمایا کہ جو لوگ فضول خرچ ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ جن لوگوں کو اللہ اپنی نعمت دیتا ہے اس کا فطری تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی نعمت کے شکر گزار ہوں اور اس کو انہی کاموں پر صرف کریں جو اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے موجب ہوں لیکن شیطان ان کو ورغلا کر اپنی راہ پر لگالیتا ہے اور خدا کا بخشا ہوا مال ان سے ان کاموں پر خرچ کراتا ہے جو ان کو خدا سے دور سے دور تر اور شیطان سے قریب سے قریب تر کردیں۔
Top