Dure-Mansoor - Al-Hadid : 10
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِیْعًا١ؕ اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَمْكُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ١ؕ وَ مَكْرُ اُولٰٓئِكَ هُوَ یَبُوْرُ
مَنْ : جو کوئی كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْعِزَّةَ : عزت فَلِلّٰهِ : تو اللہ کے لیے الْعِزَّةُ : عزت جَمِيْعًا ۭ : تمام تر اِلَيْهِ : اس کی طرف يَصْعَدُ : چڑھتا ہے الْكَلِمُ الطَّيِّبُ : کلام پاکیزہ وَالْعَمَلُ : اور عمل الصَّالِحُ : اچھا يَرْفَعُهٗ ۭ : وہ اس کو بلند کرتا ہے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَمْكُرُوْنَ : تدبیریں کرتے ہیں السَّيِّاٰتِ : بری لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۭ : عذاب سخت وَمَكْرُ : اور تدبیر اُولٰٓئِكَ : ان لوگوں هُوَ يَبُوْرُ : وہ اکارت جائے گی
جو شخص عزت حاصل کرنا چاہے تو ساری عزت اللہ ہی کے لیے ہے اچھے کلمات اس کی طرف پہنچتے ہیں اور نیک عمل انہیں بلند کردیتا ہے۔ اور جو لوگ بری تدبیریں کرتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کی تدبیر برباد ہوگی
1:۔ الفریابی وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) من کان یرید العزۃ “ (جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہے) یعنی بتوں کی عبادت سے (آیت) ” فللہ العزۃ جمیعا “ (تو ساری عزت اللہ کے لیے ہے) یعنی اس کو چاہیے کہ وہ اللہ کی عبادت کے ساتھ عزت حاصل کرے۔ 2:۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر والطبرانی (اور آپ نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے السماء والصفات میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جب ہم تم سے کوئی بات بیان کریں گے تو ہم تمہارے پاس اللہ کی کتاب میں سے اس کی تصدیق لائیں گے۔ مسلمان بندہ جب کہتا ہے ” سبحان اللہ وبحمدہ “ اور ” الحمد للہ “ اور ” لا الہ اللہ اللہ “ اور ” اللہ اکبر تبارک اللہ “ تو (ان کلمات) کو ایک فرشتہ لے کر اپنے پروں کے نیچے رکھ لیتا ہے پھر ان کو لے کر آسمان کی طرف چڑھ جاتا ہے (یہ فرشتہ) ان کلمات کو لے کر فرشتوں کی جس جماعت سے گزرتا ہے تو (وہ فرشتے) ان کلمات کے کہنے والے کے لئے استغفار کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ ان کلمات کو لے کر رحمن کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی (آیت) ” الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ “ (اللہ ہی کی طرف چڑھتے ہیں پاک کلمات اور اچھا کام اس (اچھے کلام) کو پہنچا دیتا ہے۔ فرائض اور ذکر اللہ : 3:۔ ابن مردویہ والدیلمی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الیہ یصعد الکلم الطیب “ سے مراد ہے اللہ کا ذکر ” والعمل الصالح یرفعہ “ (اس میں نیک عمل ہے) مراد فرائض کو ادا کرنا جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اپنے فرائض کی ادائیگی میں تو اس کا یہ عمل اللہ کے ذکر کو اٹھا لیتا ہے اور اس کو لے کر اللہ کی طرف چڑھ جاتا ہے اور جس شخص نے اللہ کا ذکر کیا اور اپنے فرائض کو ادا نہ کیا تو اس کا کلام اس کے عمل پر ہوگا۔ اور اس کا عمل اس کا زیادہ مستحق تھا۔ 4:۔ آدم بن ابی ایاس والبغوی والفریابی وعبد بن حمید وابن جریر والبیہقی نے الاسماء والاصفات میں مجاہد (رح) سے روایت کیا (آیت) ” الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ “ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں پاکیزہ کلمہ میں اٹھایا جاتا ہے۔ 5:۔ الفریابی نے سعید بن جبیر (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ 6:۔ ابن ابی حاتم نے شھربن حوشب (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الیہ یصعد الکلم الطیب “ سے مراد ہے قرآن مجید ہے۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے مطرف (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الیہ یصعد الکلم الطیب “ سے مراد ہے دعا۔ 8:۔ ابن المبارک وعبد بن حمید وابن المنذر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ “ سے مراد ہے کہ نیک عمل ہے پاکیزہ کلمات کو اللہ کی طرف اٹھاتا ہے اور قول عمل کے سامنے آتا ہے اگر قول عمل کے موافق ہو تو اسے بلند کیا جاتا ہے ورنہ اس کو رد کردیا جاتا ہے۔ 9:۔ ابن المبارک و سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ “ سے مراد ہے کہ نیک عمل پاک کلمات کو بلند کرتا ہے۔ 10:۔ سعید بن منصور وابن جریر وابن ابی حاتم و بیہقی نے شعب میں شھربن حوشب (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ نیک عمل پاکیزہ کلمات کو اوپر اٹھاتا ہے۔ 11:۔ ابن المنذر نے مالک بن (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی اللہ کے فرائض میں سے ایک فریضہ پر عمل کرتا ہے جبکہ اس کے باقی ماندہ کو ضائع کردیا۔ شیطان برابر اس کو (جھوٹی) امیدیں دلاتا ہے۔ اور اس کے لیے (اس کے برے اعمال کو) مزین کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ جنت کے علاوہ کسی چیز کو نہیں دیکھتا اپنے اعمال کرنے سے پہلے اعمال کرنے سے کو پہلے یہ دیکھو کہ ان (اعمال) سے تم کیا ارادہ رکھتے ہو اور وہ خالص اللہ کے لئے ہے تو اس کو جاری رکھو اور اگر غیر اللہ کے لئے ہے تو اپنی جانوں پر مشقت نہ کرو تمہارے لئے کوئی چیز بھی نہ ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی عمل کو قبول نہیں فرماتے مگر جو خالص اس کے لئے ہو کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ “ (یہ اللہ کی طرف چڑھتے ہیں پاک کلمات اور اچھاعمل ان کو پہنچا دیتا ہے) 12:۔ عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” والعمل الصالح یرفعہ “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی قول قبول نہیں فرماتے مگر عمل کے ساتھ حسن (رح) سے روایت کیا کہ عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں۔ 13:۔ ابن المبارک نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” والعمل الصالح یرفعہ “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نیک عمل کو بلند فرماتے ہیں اس کے کرنے والے کے لئے۔ سنت کے مطابق عمل ایمان کی علامت ہے : 14:۔ عبد بن حمید و بیہقی نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ آرزوئیں کرنے اور خلوت اختیار کرنے کا نام ایمان نہیں ہے۔ جبکہ اس کا نام ہے جو دلوں میں ثبت ہو اور اعمال اس کی تصدیق کریں جو شخص اچھی بات کہے اور نیک عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی بات کو رد فرما دیتے ہیں اور جو شخص اچھی بات کہے اور نیک عمل بھی کرے تو یہ عمل اس بات کو بلند کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ “ 15:۔ عبد الرزاق وابن ابی شیبہ و بیہقی نے اپنی سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ عورت کتا اور گدھا نماز کو توڑ دیتے ہیں تو انہوں نے فرمایا (آیت) ” الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ “ یہ (نماز کو) نہیں کاٹتے ہیں لیکن (ان کو گزرنا) مکروہ ہے۔ 16:۔ سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن المنذر و بیہقی شعب الایمان میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” والذین یمکرون السیات “ (اور وہ لوگ جو بری تدبیریں کرتے ہیں) اس سے ریا کرنے والے لوگ مراد ہیں اور فرمایا (آیت) ” ومکر اولئک ھو یبور “ (اور ان لوگوں کا مکر نیست ونابود ہوجائے گا) یعنی ان کا ریا کاری والا عمل نیست ونابود ہوجائے گا۔ 17:۔ سعدبن منصور وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والبیہقی نے شعب الایمان میں شھر بن حوشب (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” والذین یمکرون السیات “ سے مراد ہے یہ لوگ ریا کاری کرتے ہیں (آیت) ” ومکر اولئک ھو یبور “ یعنی دکھاوا کرنے والے لوگوں کے اعمال اوپر نہیں چڑھتے ہیں۔ 18:۔ ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” والذین یمکرون السیات “ سے مشرکین مراد ہیں (آیت) ” مکر اولئک ھویبور “ سے مراد ہے کہ ان کے عمل نیست ونابود ہوگئے اور ان کا مکر ان کو نفع نہیں دے گا اور نہ وہ اس سے کوئی فائدہ اٹھائیں گے بلکہ یہ ان کو نقصان دے گا۔ 19:۔ عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” والذین یمکرون السیات “ سے مراد ہے کہ وہ لوگ برے عمل کرتے ہیں۔ (آیت) ” مکر اولئک ھویبور “ اور ان کا یہ عمل فاسد ہوجائے گا۔ 20:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” مکر اولئک ھویبور “ اور ان کا یہ مکر ہلاک ہوجائے گا اور آخرت میں ان کے لئے کوئی ثواب نہیں ہوگا۔
Top