Fi-Zilal-al-Quran - Ar-Rahmaan : 7
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان رَفَعَهَا : اس نے بلند کیا اس کو وَوَضَعَ : اور قائم کردی۔ رکھ دی الْمِيْزَانَ : میزان
آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔
والسمائ ........................ المیزان (55: 9) (آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی ۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو ، انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو) یہاں آسمان کی طرف اشارہ ہے ، قرآن کے دوسرے اشارات کی طرح یہ بھی غافل دلوں کو جگانے کے لئے ہے اور اس کو اس طرف متوجہ کرنا مطلوب ہے کہ آسمان کو رات اور دن تم دیکھتے ہو تم اس کی اہمیت نہ کھو دو ۔ اس پر غور کرو ، اس کی عظمت اس کے جمال اور اس کی صفت میزانیت پر غور کرو کہ اس کے مدار اور رفتار میں بال برابر فرق نہیں آتا اور اس کے ذریعہ قدرت والے کی قدرتوں کو دیکھو۔ آسمان سے مراد جو بھی ہو ، یہاں حکم دیا جاتا ہے کہ ذرا اوپر کو دیکھو ، تمہارے اوپر ایک ہولناک فضا ہے۔ بہت بلند بہت دور ، بلا حدود وقیود ، اس فضا کے اندر ہزار ہا ملین عظیم الجثہ اجرام فلکی تیر رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی دو آپس میں نہیں ملتے۔ ان کا کوئی مجموعہ دوسر مجموعات سے متصادم نہیں ہوتا۔ ان مجموعات کی تعداد میں ایک ایک مجموعے کی تعداد بعض اوقات ایک ہزار ملین تاروں تک پہنچ جاتی ہے۔ ہمارے نظام شمسی کو جس مجموعے کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اس میں ہمارے سورج جیسے اجرام بھی ہیں اور اس سے ہزار ہا گنا بڑے بھی ہیں۔ فقط ہمارے سورج کا قطر 21۔ املین کلومیٹر ہے اور یہ سب ستارے اور یہ سب کا مجموعے اس کائنات کے اندر نہایت ہی خوفناک تیزی کے ساتھ حرکت پذیر ہیں لیکن یہ سب اس عظیم اور محیرالعقول وسیع فضائے کائنات میں اس طرح ہیں جس طرح زمین کی فضا میں ذرات تیرر رہے ہیں جو ایک دوسرے سے دور دور چلتے ہیں اور ان کے اندر کوئی تصادم نہیں ہوتا۔ (اور اگر ہوجائے تو ؟ ) اللہ نے اس آسمان کو جس طرح بلند کیا ہے اور ہولناک حد تک وسیع کیا ہے اور اس کے لئے ایک فطری میزان تجویز کیا ہے اسی طرح تمعہارے لئے بھی ایک میزان حق تجویز کیا ہے۔ یہ ثابت ، مضبوط اور جماہوا ہے اور یہ میزان قدروں کی پیمائش اور وزن کے لئے ہے۔ افراد کی قدر ، واقعات کی قدر ، اشیاء کی قدر تاکہ ہر کسی کا وزن اور قدر متعین ہوجائے اور ان میں خلل واقع نہ ہو اور لوگ جہالت ، عناد اور خواہشات کے مطابق اچھے برے کا فیصلہ نہ کرتے پھریں۔ اس میزان کو فطرت کے اندر بھی رکھا ہوا ہے اور دعوت اسلامی کے اندر بھی رکھا ہوا ہے جسے تمام رسول لے کر آئے ہیں اور آخر میں یہ قرآن کی شکل میں آیا ہے۔
Top