Jawahir-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 7
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان رَفَعَهَا : اس نے بلند کیا اس کو وَوَضَعَ : اور قائم کردی۔ رکھ دی الْمِيْزَانَ : میزان
اور آسمان4 کو اونچا کیا اور رکھی ترازو
4:۔ ” والسماء “ علویات کا ذکر۔ اوپر آسمان کو بلند کیا اور اس کی بلندی کا ایک اناز مقرر کیا۔ المیزان سے عدل و انصاف مراد ہے۔ عن مجاھد وقتادۃ والسدی ای وضع فی الارض العدل الذی امر بہ (قرطبی ج 17 ص 104) ۔ یعنی اس نے ھکم دیا ہے کہ ہر کام میں عدل و انصاف سے کام لو اس صورت میں عدل کا معیار قرآن ہوگا کیونکہ اس معاملے میں قرآن ہی میزان اور معیار ہوسکتا ہے علی ھذا المیزان القران لان فیہ بیان ما یحتاج الیہ وھو قول الحسین بن الفضل (قرطبی) اس صورت میں ان آیتوں کا حاصل یہ ہوگا کہ دنیا میں قرآن میزانِ عدل ہے ہر بات کو اس کی روشنی میں جانچو اور اس میزان کو نظر انداز نہ کرو اور اس میزان کے فیصلے سے تجاوز نہ کرو۔ واقیموا الوزن۔ الایۃ، ہر چیز کو نیک نیتی سے اس میزان پر ٹھیک ٹھیک تولو اور اس میں کمی نہ کرو۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ” المیزان “ سے مراد عقل ہے اور یہ ایک تمثیل ہے۔ انسان تولنے میں تین طریقوں سے نقصان کرتا ہے۔ اول یہ کہ میزان یعنی تروازو ہی میں کوئی نقص ڈالتا ہے۔ دوم یہ کہ ترازو تو درست ہوتا ہے لیکن ہاتھ سے ترازو کا یک طرف جھکا دیتا ہے۔ سوم یہ کہ ہاتھ سے جھٹکا بھی نہیں دیتا لیکن کسی اور تدبیر سے کم تولتا ہے، یہاں ان تینوں طریقوں سے منع فرمایا۔ حاصل تمثیل یہ ہے کہ جس طرح ترازو اس لیے ہے کہ اس سے ہر چیز کو عدل و انصاف سے تولا جائے اسی طرح عقل و انصاف کے تروازو سے ان تمام امور کو تولو اور فیصلہ کرو جس ذات پاک کے صفات و افعال وہ ہو جو یہاں مذکور ہیں کیا اس کے سوا کوئی اور برکات دہندہ ہوسکتا ہے۔
Top