Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 7
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان رَفَعَهَا : اس نے بلند کیا اس کو وَوَضَعَ : اور قائم کردی۔ رکھ دی الْمِيْزَانَ : میزان
اور آسمان کو اونچا کیا اور رکھی ترازو
وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيْزَانَ ، رفع اور وضع دو متقابل لفظ ہیں، رفع کے معنی اونچا اور بلند کرنے کے ہیں اور وضع کے معنی نیچے رکھنے اور پست کرنے کے آتے ہیں، اس آیت میں اول آسمان کو بلند کرنے اور رفعت دینے کا ذکر ہے، جس میں ظاہری بلندی بھی داخل ہے اور معنوی یعنی درجہ اور رتبہ کی بلندی بھی کہ آسمان کا درجہ زمین کی نسبت بالا و برتر ہے، آسمان کا مقابل زمین سمجھی جاتی ہے اور پورے قرآن میں اسی تقابل کے ساتھ آسمان و زمین کا ذکر کیا گیا ہے اس آیت میں رفع سماء کا ذکر کرنے کے بعد وضع میزان کا ذکر کیا گیا ہے جو آسمان سے تقابل میں نہیں آتا، غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی درحقیقت آسمان کے تقابل میں زمین کو لایا گیا ہے جیسا کہ تین آیتوں کے بعد (وَالْاَرْضَ وَضَعَهَا لِلْاَنَامِ) آیا ہے، تو دراصل تقابل رفع سماء اور وضع ارض ہی کا ہے، مگر ان دونوں کے درمیان ایک تیسری چیز یعنی وضع میزان کا ذکر کسی خاص حکمت سے کیا گیا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکمت اس میں یہ ہے کہ وضع میزان اور پھر اس کے بعد میزان کے صحیح صحیح استعمال کا حکم جو بعد کی تین آیتوں میں آیا ہے اس سب کا خلاصہ عدل و انصاف کا قائم کرنا ہے اور کسی کی حق تلفی اور ظلم وجور سے بچانا ہے، یہاں رفع سماء اور وضع ارض کے درمیان آیات میزان کے ذکر میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق کی اصلی غایت و مقصود بھی عالم میں عدل و انصاف کا قیام ہے اور زمین میں امن وامان بھی عدل و انصاف ہی کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے، ورنہ فساد ہی فساد ہوگا، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
لفظ میزان کی تفسیر اس آیت میں حضرت قتادہ، مجاہد، سدی وغیرہ نے عدل سے کی ہے، کیونکہ میزان کا اصل مقصد عدل ہی ہے اور بعض حضرات مفسرین نے یہاں میزان کو اپنے معروف معنی میں لیا ہے اور حاصل اس کا بھی وہی ہے کہ حقوق میں عدل و انصاف سے کام لیا جائے اور میزان کے معنی میں ہر وہ آلہ داخل ہے جس سے کسی چیز کی مقدار معین کی جائے، خواہ وہ دو پلے والی ترازو ہو یا کوئی جدید آلہ پیمائش۔
Top