Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 181
وَ مِمَّنْ خَلَقْنَاۤ اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ۠   ۧ
وَمِمَّنْ : اور سے۔ جو خَلَقْنَآ : ہم نے پیدا کیا اُمَّةٌ : ایک امت (گروہ) يَّهْدُوْنَ : وہ بتلاتے ہیں بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (ٹھیک) وَبِهٖ : اور اس کے مطابق يَعْدِلُوْنَ : فیصلہ کرتے ہیں
ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ ہدایت اور حق کے مطابق انصاف کرتا ہے
تفسیر آیات 181 تا 183:۔ اس کے بعد اب ہدایت و ضلالت کے اعتبار سے لوگوں کی اقسام بیان کی جا رہی ہیں ، اس سے پہلے بتایا جاتا چکا ہے کہ بعض لوگ پیدائشی طور پر جہنمی ہیں۔ ان کے دل ہیں مگر ان کے ساتھ سوچتے نہیں ، ان کی آنکھیں ہیں مگر ان کے ساتھ دیکھتے نہیں ، ان کے کان ہیں مگر ان کے ساتھ سنتے نہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں اور اللہ کے اس حسنیٰ کو غلط جگہ استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جس نے سچائی کو پختگی کے ساتھ پکڑا ہوا ہے اور وہ لوگوں کو بھی سچائی کی طرف بلاتے ہیں۔ وہ سچائی کے مطابق فیصلے صادر کرتے ہیں اور اس سے ذرہ بھر انحراف نہیں کرتے۔ ایک گروہ ایسا ہے جو ضد کی وجہ سے حق کا انکار کرتا ہے۔ اللہ کی آیات کو جھٹلاتا ہے۔ پہلا گروہ تو وہ ہے کہ ان کا وجود اس سرزمین پر مستحکم ہے۔ یہ لوگ جمے ہوئے ہیں اور یہ حق کے نگہبان ہیں۔ اور جو لوگ انحراف کرتے ہیں اور جو ٹیرھی راہوں پر چلتے ہیں یہ ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور جب دوسرے لوگ حق کی تکذیب کرتے ہیں اور حق کو چھوڑ دیتے یہ لوگ حق کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں۔ رہے فریق مخالف تو ان کا انجام خوفناک ہوگا اور ان کے مقابلے میں اللہ کی تدبیر مستحکم ہوگی۔ وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ۔ وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔ وَاُمْلِيْ لَهُمْ ڵ اِنَّ كَيْدِيْ مَتِيْنٌ۔ ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ ہدایت اور حق کے مطابق انصاف کرتا ہے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہے ، تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی۔ میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں ، میری چال کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ یہ جو حاملین حق ہیں اگر انسانیت میں یہ نہ ہوں تو انسانیت عزت اور شرف کی مستحق ہی نہ ہو ، یہ گروہ جسے قرآن کریم اسلامی اصطلاح کے مطابق امت کہتا ہے اس دنیا میں ہر وقت کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتا ہے۔ یہ وہ جماعت ہوتی ہے جس کا ایک ہی نظریہ ہوتا ہے ، جو اس نظریہ اور عقیدے پر باہم منظم اور مربوط ہوتی ہے اور اس کی قیادت بھی ایک ہی ہوتی ہے۔ یہی امت ہے جو حق پر جمی ہوئی ہے۔ جو حق پر عمل پیرا ہوتی ہے ، اور یہ اس سچائی کی نگہبان ہوتی ہے۔ اور یہ اس نظریہ کی شہادت لوگوں پر دیتی ہے اور گمراہیوں کے خلاف اللہ اس امت کے ذریعے شہادت اور حجت قائم کرتے ہیں۔ اور ذرا اس کی صفت پر غور کریں۔ یہدون بالحق و بہ یعدلون۔ یہ گروہ حق سے ہدایت لیتا ہے اور حق کی ہدایت دیتا ہے اور حق کے مطابق انصاف کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کرہ ارض پر سے اس امت کا وجد ختم نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ اس کے افراد کی تعداد کم ہوجائے۔ یہ لوگ سچائی کی ہدایت دیتے اور اس کے پیرو میں ہیں اور یہ لوگ کسی بھی وقوت اس دعوت سے خاموش نہیں ہوتے۔ وہ اس حق پر عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو اس طرف بلاتے ہیں۔ وہ اس حق کو اپنے تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ اسے دوسروں تک بھی پہنچاتے ہیں۔ ان کے اردگرد ایسی قیادت موجود ہوتی ہے اور اس قیادت نے حق کو ترک کردیا ہوتا ہے اور انہوں نے اپنے اس فطری عہد کو بھی بھلا دیا ہوتا ہے جو انہوں نے اللہ سے کر رکھا تھا۔ غرض اس گروہ کا عمل مثبت ہوتا ہے اور وہ صرف اپنے آپ تک محدود نہیں ہوتے بلکہ وہ اس کے حامل ہوتے ہیں اور دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ اور وہ اس سچائی کے ساتھ قیادت کرتے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی یہاں تک ہی ختم نہیں ہوجاتی کہ بس وہ حق کی دعوت دے دیں بلکہ ان کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ لوگوں کی زندگیوں میں اس حق کو قائم کریں۔ اس کے مطابق فیصلے کریں۔ دنیا میں نظام عدل قائم کریں اور ظاہر ہے کہ نظام عدل اس حق کے بغیر قائم ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ حق اس لیے نہیں آیا کہ اسے صرف پڑھایا جائے اور ایک علمی مشغلہ ہو ، یہ حق اس لیے بھی نہیں آیا کہ یہ محض وعظ اور نصیحت ہو ، بلکہ یہ اس لیے آیا ہے کہ حق لوگوں کے درمیان فیصلے کردے۔ پہلے وہ لوگوں کے اعتقادی تصورات اور نظریات کے فیصلے کرے کہ کیا عقیدہ درست ہے اور کیا نظریہ غلط ہے۔ چناچہ حق سب سے پہلے تطہیر افکار کا کام کرتا ہے اور لوگوں کی فکری اساس کو درست کرتا ہے۔ اس کے بعد یہ حق لوگوں کا ربط اللہ سے قائم کرکے اللہ کے سامنے جو مراسم عبودیت ادا کیے جاتے ہیں ان کو درست کرتا ہے۔ اور اس کے بعد یہ حق لوگوں کا ربط اللہ سے قائم کرکے اللہ کے سامنے جو مراسم عبودیت ادا کیے جاتے ہیں ان کو درست کرتا ہے۔ اور اس کے بعد لوگوں کی اجتماعی زندگی کو اس حق پر استوار کرکے اسے ایک نظام زندگی کی شکل میں قائم کرتا ہے۔ لوگوں کی اجتماعی زندگی اور ان کی سوسائٹی کو حق کے اصولوں پر قائم کرکے ، اس اجتماعی نظام میں حق کے قوانین اور شریعت کو نافذ کرتا ہے۔ چناچہ لوگوں کے اخلاق و عادات ، ان کے رسم و رواج ، ان کے طرز عمل اور سلوک کو سچائی پر ، منظم اور استوار کیا جاتا ہے یہ سب کچھ درست تصورات اور عقائد کی اساس پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد لوگوں کے طرز فکر ، ان کے علوام اور ان کی ثقافتی سرگرمیوں کو بھی اس نظام حق پر ترقی دی جاتی ہے۔ یہ ہے وہ ڈیوٹی جو اس امت کو دی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ امت ممتاز اور متعارف ہے اور یہ اس امت کی شناخت ہے۔ غرض اس دین کا مزاح بالکل واضح ہے اور اس کے بارے میں کسی قسم کی غلط فہمی یا التباس ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ ٹھوس مزاج ہے اور یہ بدل ہی نہیں سکتا ، جو لوگ دین میں الحد کی مساعی کرنا چاہتے ہیں وہ بسیار سعی نامسعود کے ساتھ دین کے اس سخت مزاج کو بدل نہیں سکتے۔ یہ لوگ اس سلسلے میں ان تھک مساعی کرتے ہیں ، مسلسل اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں ، یہ لوگ ہر قسم کے وسائل و ذرائع کام میں لا کر اس دین کے نقطہ نظر کو بدلنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں تمام تجربات سے استفادہ کرتے ہیں ، اس پوری دنیا میں جو لوگ احیائے اسلام کا کام کرتے ہیں اور جو اس سچائی کو سینے سے لگا کر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ ان کے خلاف اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہر حربے کو استعمال کرتے ہیں۔ ان کو مٹانے کی سعی کرتے ہیں اور انہوں نے تمام اسلامی علاقوں میں اپنے ایجنٹوں کی تنظیمیں اور حکومتیں قائم کر رکھی ہیں ، پھر یہ لوگ ان علاقوں پر دین فروش علماء کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور یہ علماء دین اسلام کی تحریف کا کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ حرام کو حلال کرتے ہیں اور حلال کو حرام کرتے ہیں ، اللہ کی شریعت کو نرم کرتے ہیں اور ہر قسم کے فسق و فجور کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ، اور فحاشی کو رواج دیتے ہیں ، اور فحاشی اور فسق و فجور کو اسلامی عنوانات دیتے ہیں۔ یہ لوگ ایسے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جو جدید مادی ترقیات سے متاثر ہوں ، اور جدید نظریات سے مرعوب ہوں اور انہیں اپنے جھولوں میں بٹھا کر ورغلاتے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ اسلام کو اپنی ٹھوس اساس سے ہٹا کر جدید نظریات کا رنگ دیتے ہیں یوں اسلام کے اندر جدید نظریات ، تہذیب جدید کے شعارات اور جدید رسوم اور قوانین اسلام کے نام سے داخل کرتے ہیں۔ یہ لوگ یہ تاثر دیتے ہیں کہ اسلامی تہذیب ایک تاریخی خادثہ تھا اور اسے کسی صورت میں بھی دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا۔ نہ اس حادثے کا اعادہ ممکن ہے۔ یہ لوگ اسلام کی عظمت رفتہ کو رفت و گزشت سے تعبیر کرکے مسلمانوں کے جذبات کو سن کرنا چاہتے ہیں اور پھر ان کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ آج اسلام اگر زندہ رہنا چاہتا ہے تو وہ ایک عقیدے اور مراسم عبودیت تک محدود ہو کر زندہ رہ سکتا ہے۔ اس کا سیاسی اور قانونی نظام نہیں چل سکتا۔ اسلام کے لیے عظمت رفتہ کے قصے کہانیاں ہی بہتر اور کافی و شافی ہیں۔ اگر یہ نہیں تو پھر یہ ممکن ہے کہ اسلام کے اندر اس قدر تغیرات پیدا کیے جائیں کہ وہ جدید دور کے حالات کے تابع ہوجائے اور وہ اپنے آپ کو لوگوں کی خواہشات اور ان کی واقعی صورت حالات کے مطابق ڈھال لے ، اور عالم اسلام میں یہ لوگ خود جو لادینی نظریات رائج کر رہے ہیں ان کو وہ اسلام قرار دینے کے درپے ہیں۔ یہ لوگ قرآن کی ایسی تعبیرات کرتے ہیں جو قدیم قرآن میں متعارف نہ تھیں بلکہ خدا اور جبریل اور مصطفیٰ کو بھی ان کا پتہ نہ تھا۔ یہ لوگ جس طرح قرآن کو بدلنا چاہتے ہیں اسی طرح اسلامی معاشروں کو بھی بدلنا چاہتے ہیں۔ اور یہ اس لیے کہ دین اسلام کو ایسے افراد کار ہی نہ ملیں جو اس کے کام کے ہوں۔ عالم اسلام میں یہ لوگ ایسا معاشرہ وجود میں لانا چاہتے ہیں جو جنسی بےراہ روی گندے کے تالاب میں غرق ہو اور لوگ فحاشی اور بدکاری اور بد اخلاقی میں غرق ہوں اور جنہیں دنیاوی عیش و مستی کے سوا کسی اور غرض سے سروکار نہ ہو اور وہ دنیا میں اس قدر غرق ہوں کہ انہیں حق و صلاحیت اور اصل قرآنی ہدایات سننے کے مواقع ہی نہ ہوں ، اس طرح کہ غلطی سے بھی ان کے کانوں تک اسلامی ہدایات نہ پہنچ سکیں۔ یہ وہ ہمہ گیر معرکہ ہے جو اس وقت امت کے خلاف اور اس دین کے خلاف چار دانگ عالم میں برپا ہے ، وہ امت جو اس دین سے ہدایت لیتی ہے اور اس کی داعی ہے اور جو اس کا نظام عدل دنیا میں قائم کرنا چاہتی ہے۔ یہ وہ ہمہ گیر معرکہ آرائی ہے جس میں دشمنان اسلام ہر قسم کا ہتھیار کام میں لا رہے ہیں۔ بےحد و حساب وسائل اس میں جھونک رہے ہیں۔ اس لیے دشمن اپنی تمام تر قوتوں کو منظر کرکے انہیں وسائل دے کر اور نشر و اشاعت کے تمام ذرائع اور جدید سے جدید ذرائع ابلاغ دے کر میدان میں لایا ہے۔ ان قوتوں کی پشت پر عالمی تنظیمیں اور ادارے ہیں ، اور یہ عالمی کفالت اور ضمانت نہ ہو تو دشمنان اسلام کے یہ ایجنٹ اور یہ ادارے اور حکومتیں اس امت کے داعیوں کے سامنے ایک دن بھی ٹک نہ سکیں۔ لیکن اس ہمہ گیر معرکہ آرائی اور وسیع و عریض مہمات کے باوجود معلوم ہوتا ہے کہ یہ دین نہایت ہی سخت جان دین ہے۔ یہ امت جو اس دین کے لیے کوشاں ہے ، نہایت ہی سخت جان ہے۔ اپنی قلت تعداد اور اپنے قلت وسائل کے باوجود اور اپنی کمزوریوں کے باوجود وہ اس وحشیانہ حملے کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے۔ ذرا دوبارہ غور کیجیے۔ وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔ وَاُمْلِيْ لَهُمْ ڵ اِنَّ كَيْدِيْ مَتِيْنٌ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہے ، تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی۔ میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں ، میری چال کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ یہ لوگ اس قوت ، اس الہی قوت کو خاطر میں نہیں لاتے ، اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مذکورہ بالا مہم جاری رکھے ہوئے ہیں ، حالانکہ امت مسلمہ نے اسلام کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے وہ اسلام کی قوت پر مجتمع ہے۔ یہ وہ قوت ہے کہ آیات الہیہ کی تکذیب کرنے والے اس کو سمجھ نہیں پا رہے ۔ وہ لوگ اس حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے کہ اللہ نے ان لوگوں کو ڈھیل دے رکھی ہے ، اور یہ ڈھیل ایک مقررہ وقت تک ہے ، اور ان کو یہ یقین ہی نہیں ہے کہ اللہ کی تدبیر نہایت ہی مستحکم ہوتی ہے۔ ان دشمنان اسلام نے ایک دوسرے کے ساتھ دوستیاں گانٹھ رکھی ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس زمین پر ان کا راج ہے۔ لیکن یہ لوگ خدا کی قوت کبری کو دیکھ نہیں پا رہے۔ غرض جھٹلانے والوں کے ساتھ اللہ کا معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اللہ ان کو ڈھیل دئیے رکھتا ہے اور سرکشی اور نافرمانی کے لیے انہیں طویل مہلت دیتا ہے۔ چناچہ یہ لوگ اللہ کی اسکیم میں پوری طرح پکڑے جاتے ہیں اور یہ تدبیر عام شخص کی نہیں ہوتی کہ اللہ جیسے جبار اور صاحب قوت متین کی تدبیر ہوتی ہے۔ لیکن دشمنان اسلام غافل ہیں اس بات سے کہ آخری انجام ان لوگوں کا ہی ہوگا جو متقین ہیں اور جو حق پر ہیں اور حق کے داعی ہیں اور حق کا نظام عدالت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
Top