Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 181
وَ مِمَّنْ خَلَقْنَاۤ اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ۠   ۧ
وَمِمَّنْ : اور سے۔ جو خَلَقْنَآ : ہم نے پیدا کیا اُمَّةٌ : ایک امت (گروہ) يَّهْدُوْنَ : وہ بتلاتے ہیں بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (ٹھیک) وَبِهٖ : اور اس کے مطابق يَعْدِلُوْنَ : فیصلہ کرتے ہیں
اور جن کو ہم نے پیدا کیا ان میں ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو حق کے مطابق لوگوں کی راہنمائی اور اس کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔
ارشاد فرمایا : وَمِمَّنْ خَلَقُنَآ اُمَّۃٌ یَّھْدُوْنَ بَالْحَقِ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ ۔ (الاعراف : 181) ” اور جن کو ہم نے پیدا کیا ان میں ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو حق کے مطابق لوگوں کی راہنمائی اور اس کے مطابق فیصلے کرتے ہیں “۔ امتِ مسلمہ کا حقیقی تعارف : امامِ تفسیریر ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کو تلاوت کر کے ارشاد فرمایا کہ یہ امت جس کا ذکر اس آیت میں ہے، میری امت ہے، جو اپنے سب جھگڑوں کے فیصلے حق و انصاف یعنی قانونِ الٰہی کے مطابق کریں گے اور لینے دینے کے تمام معاملات میں حق و انصاف کو سامنے رکھیں گے۔ عبد بن حمید کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ( رض) کو خطاب کر کے فرمایا کہ یہ آیت تمہارے حق میں آئی ہے اور تم سے پہلے بھی ایک امت کو یہ صفات عطا ہوچکی ہیں، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی :{ وَمِنْ قَوْمِ مُوْ سٰٓی اُمَّۃٌ یَّھْدُوْنَ بَالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ } مراد یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں بھی ایک جماعت ان صفات کی حامل تھی کہ لوگوں کی راہنمائی میں اور باہمی جھگڑوں کے تصفیہ میں حق یعنی شریعتِ الٰہیہ کا مکمل اتباع کرتی تھی اور امت محمدیہ ﷺ کو بھی حق تعالیٰ نے ان صفات میں خصوصی امتیاز بخشا ہے۔ خلاصہ اس کا دو خصلتیں ہیں ایک یہ کہ دوسرے لوگوں کی قیادت اور رہنمائی یا مشورہ میں شریعت کا اتباع کریں دوسرے یہ کہ اگر کوئی جھگڑا آپس میں پیش آجائے تو اس کا فیصلہ شریعت کے قانون کے مطابق کریں۔ غور کیا جائے تو یہی دو صفتیں ہیں جو کسی قوم اور جماعت کی خیر و خوبی اور فلاح دنیاو آخرت کی ضامن ہوسکتی ہیں کہ صلح و جنگ اور دوستی اور عداوت کی ہر حالت میں ان کا نصب العین حق و انصاف ہی ہو ‘ اپنے دوستوں اور رفیقوں کو جو طریقہ کار بتلائیں اس میں بھی حق کا اتباع ہو اور دشمنوں اور حریفوں کے جھگڑوں میں بھی حق کے آگے اپنے سارے خیالات و خواہشات کو ترک کردیں، جس کا خلاصہ ہے حق پرستی۔ امتِ محمدیہ ﷺ کی دوسری تمام امتوں پر فضیلت اور فوقیت کا راز اور ان کا طغرائے امتیاز یہی حق پرستی ہے کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی کو حق کے تابع بنایا جس جماعت یا پارٹی کی قیادت اور راہنمائی کی وہ بھی خالص حق کے تقاضوں کے مطابق کی ‘ اپنی ذاتی خواہشات اور خاندانی یا قومی رسوم کو اس میں مطلق دخل نہیں دیا اور باہمی نزاعات میں بھی ہمیشہ حق کے سامنے گردن جھکا دی ‘ صحابہ وتابعین کی پوری تاریخ اس کی آئینہ دار ہے اور جب سے اس امت میں ان دو خصلتوں کے اندر خلل اور نقصان آیا اسی وقت سے اس کا تنزل و انحطاط شروع ہوگیا۔ نہایت رنج و افسوس کا مقام ہے کہ آج یہی حق پرست امت خالص ہوا پرست بن کر رہ گئی ہے اس کی پارٹیاں اور جماعتیں بنتی ہیں تو وہ بھی خالص نفسانی اغراض اور دنیا کی حقیر و ذلیل منفعت کی بنیادوں پر بنتی ہیں ایک دوسرے کو جن امور کی پابندی کی طرف دعوت دی جاتی ہے وہ بھی خالص ہوائِ نفسانی یا خاندانی رسوم ہوتی ہیں کوئی ان کے خلاف کرنے لگے تو سب اس کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں لیکن حق و شریعت کے مطابق چلنے کا نہ کہیں معاہدہ ہوتا ہے نہ کوئی اس کی پیروی کرنے کے لیے کسی کو کہتا ہے نہ اس کی خلاف ورزی کرنے سے کسی کی پیشانی پر بل آتا ہے۔ اسی طرح باہمی جھگڑوں اور نزاعی مقدمات میں دنیا کے چند روزہ موہوم نفع کی خاطر اللہ کے قانون کو چھوڑ کر طاغوتی قوانین کے ذریعہ فیصلہ کرنے پر راضی ہیں۔ اسی کا یہ انجامِ بد ہے جو ہر جگہ ہر ملک میں مشاہدہ میں آرہا ہے کہ یہ امت ہر جگہ ذلیل و خوار نظر آتی ہے۔ الا ماشاء اللہ انھوں نے حق سے منہ موڑا ‘ حق نے ان کی نصرت و امداد سے رخ پھیرلیا۔ حق پرستی کے بجائے ہوا پرستی اختیار کر کے شخصی طور پر کسی فرد کو جو دنیوی منافع مل گئے وہ اس پر مگن ہے، مگر پوری قوم و ملت کی تباہی جو اس کا لازمی نتیجہ ہے اس کا کوئی دیکھنے ‘ سننے والا نہیں۔ اگر پوری امت کی فلاح و ترقی پیش نظر ہو تو اس کے سوا کوئی راہ نہیں کہ ان قرآنی اصول کو مضبوطی سے پکڑا جائے ‘ خود بھی اس پر عمل کیا جائے اور دوسروں کو بھی اس کا پابند بنانے کی کوشش کی جائے۔
Top