Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 181
وَ مِمَّنْ خَلَقْنَاۤ اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ۠   ۧ
وَمِمَّنْ : اور سے۔ جو خَلَقْنَآ : ہم نے پیدا کیا اُمَّةٌ : ایک امت (گروہ) يَّهْدُوْنَ : وہ بتلاتے ہیں بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (ٹھیک) وَبِهٖ : اور اس کے مطابق يَعْدِلُوْنَ : فیصلہ کرتے ہیں
اور ان لوگوں میں کہ جن کو ہم نے پیدا کیا ہے ایک جماعت ہے کہ راہ بتلاتے ہیں سچی اور اسی کے موافق انصاف کرتے ہیں
خلاصہ تفسیر
اور ہماری مخلوق جن و انس میں (سب گمراہ ہی نہیں بلکہ) ایک جماعت (ان میں) ایسی بھی ہے جو (دین) حق (یعنی السلام) کے موافق (لوگوں کو) ہدایت (بھی) کرتے ہیں اور اسی کے موافق (اپنے اور غیروں کے معاملات میں) انصاف بھی کرتے ہیں اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ہم ان کو بتدریج (جہنم کی طرف) لئے جارہے ہیں اس طور کہ ان کو خبر بھی نہیں اور (دنیا میں عذاب نازل کر ڈالنے سے) ان کو مہلت دیتا ہوں، بیشک میری تدبیر بہت مضبوط ہے کیا ان لوگوں نے اس بات میں غور نہ کیا کہ ان کا جن سے سابقہ ہے ان کو ذرا بھی جنون نہیں وہ تو صرف ایک صاف صاف (عذاب سے) ڈرانے والے ہیں (جو کہ اصالةً پیغمبر کا کام ہوتا ہے) اور کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا آسمانوں اور زمین کے عالم میں اور (نیز) دوسری چیزوں میں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں (تاکہ ان کو توحید کا علم استدلالی حاصل ہوجاتا) اور اس بات میں (بھی غور نہیں کیا) کہ ممکن ہے کہ ان کی اجل قریب ہی آپہنچی ہو (تاکہ احتمال عذاب سے ڈرتے اور اس سے بچنے کی فکر کرتے اور اس فکر سے دین حق مل جاتا اور امکان قرب اجل ہر وقت ہے اور جب قرآن جیسے موثر کلام سے ان کی فکر تک کو حرکت نہیں ہوتی تو) پھر قرآن کے بعد کونسی بات پر یہ لوگ ایمان لائیں گے۔

معارف و مسائل
پچھلی آیات میں اہل جہنم کے حالات وصفات اور ان کی گمراہی کا یہ سبب بیان کیا تھا کہ انہوں نے خداداد عقل و بصیرت اور فطری قوتوں کو ان کے اصلی کام میں نہ لگایا اور ضائع کردیا پھر اس کے بعد ان کے مرض کا علاج اسماء الہیہ اور ذکر اللہ کے ذریعہ بتلایا گیا تھا، مذکورہ آیات سے پہلی آیت میں ان کے بالمقابل اہل ایمان اور اہل حق کا ذکر ہے جنہوں نے عقل خداداد سے کام لے کر صحیح راستہ اختیار کیا، ارشاد ہے (آیت) وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ، یعنی جن لوگوں کو ہم نے پیدا کیا ہے ان میں ایک امت ایسی ہے جو حق کے موافق ہدایت کرتے ہیں یعنی لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، اور جب ان کے آپس میں کوئی نزاع یا مقدمہ پیش آئے تو اپنے جھگڑوں کا فیصلہ بھی حق یعنی قانون الہی کے ماتحت کرتے ہیں۔
امام تفسیر ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کو تلاوت کرکے ارشاد فرمایا کہ یہ امت جس کا ذکر اس آیت میں ہے، میری امت ہے، جو اپنے سب جھگڑوں کے فیصلے حق و انصاف یعنی قانون الہی کے مطابق کریں گے اور لینے دینے کے تمام معاملات میں حق و انصاف کو سامنے رکھیں گے۔
اور عبد بن حمید کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو خطاب کرکے فرمایا کہ یہ آیت تمہارے حق میں آئی ہے اور تم سے پہلے بھی ایک امت کو یہ صفات عطا ہوچکی ہیں، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی، (آیت) وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ، مراد یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی امت میں بھی ایک جماعت ان صفات کی حامل تھی کہ لوگوں کی رہنمائی میں اور باہمی جھگڑوں کے تصفیہ میں حق یعنی شریعت الہیہ کا مکمل اتباع کرتی تھی، اور امت محمدیہ کو بھی حق تعالیٰ نے ان صفات میں خصوصی امتیاز بخشا ہے۔
خلاصہ اس کا دو خصلتیں ہیں ایک یہ کہ دوسرے لوگوں کی قیادت اور رہنمائی یا مشورہ میں شریعت کا اتباع کریں، دوسرے یہ کہ اگر کوئی جھگڑا آپس میں پیش آجائے تو اس کا فیصلہ شریعت کے قانون کے مطابق کریں۔
غور کیا جائے تو یہی دو صفتیں ہیں جو کسی قوم اور جماعت کی خیر و خوبی اور فلاح دنیا و آخرت کی ضامن ہوسکتی ہیں کہ صلح و جنگ اور دوستی اور عداوت کی ہر حالت میں ان کا نصب العین حق و انصاف ہی ہو، اپنے دوستوں اور رفیقوں کو جو طریقہ کار بتلائیں اس میں بھی حق کا اتباع ہو اور دشمنوں اور حریفوں کے جھگڑوں میں بھی حق کے آگے اپنے سارے خیالات و خواہشات کو ترک کردیں، جس کا خلاصہ ہے حق پر ستی۔
امت محمدیہ کی دوسری تمام امتوں پر فضیلت اور فوقیت کا راز اور ان کا طغرائے امتیاز یہی حق پرستی ہے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی کو حق کے تابع بنایا، جس جماعت یا پارٹی کی قیادت اور رہنمائی کی وہ بھی خالص حق کے تقاضوں کے مطابق کی، اپنی ذاتی خواہشات اور خاندانی یا قومی رسوم کو اس میں مطلق دخل نہیں دیا، اور باہمی نزاعات میں بھی ہمیشہ حق کے سامنے گردن جھکا دی، صحابہ وتابعین کی پوری تاریخ اس کی آئینہ دار ہے۔
اور جب سے اس امت میں ان دو خصلتوں کے اندر خلل اور نقصان آیا اسی وقت سے اس کا تنزل و انحطاط شروع ہوگیا۔
نہایت رنج و افسوس کا مقام ہے کہ آج یہی حق پرست امت خالص ہوا پرست بن کر رہ گئی ہے، اس کی پارٹیاں اور جماعتیں بنتی ہیں تو وہ بھی خالص نفسانی اغراض اور دنیا کی حقیر و ذلیل منفعت کی بنیادوں پر بنتی ہیں، ایک دوسرے کو جن امور کی پابندی طرف دعوت دی جاتی ہے وہ بھی خالص اہواء نفسانی یا خاندانی رسوم ہوتی ہیں، کوئی ان کے خلاف کرنے لگے تو سب اس کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں، لیکن حق و شریعت کے مطابق چلنے کا نہ کہیں معاہدہ ہوتا ہے نہ کوئی اس کی پیروی کرنے کے لئے کسی کو کہتا ہے نہ اس کی خلاف ورزی کرنے سے کسی کی پیشانی پر بل آتا ہے۔
اسی طرح باہیمی جھگڑوں اور نزاعی مقدمات میں دنیا کے چند روزہ موہوم نفع کی خاطر اللہ کے قانون کو چھوڑ کر طاغوتی قوانین کے ذریعہ فیصلہ کرانے پر راضی ہیں۔
اسی کا یہ انجام بد ہے جو ہر جگہ ہر ملک میں مشاہدہ میں آرہا ہے کہ یہ امت ہر جگہ ذلیل و خوار نظر آتی ہے، الا ماشاء اللہ، انہوں نے حق سے منہ موڑا، حق نے ان کی نصرت و امداد سے رخ پھیرلیا۔
حق پرستی کے بجائے ہَوا پرستی اختیار کرکے شخصی طور پر کسی کسی فرد کو جو دنیوی منافع مل گئے وہ اس پر مگن ہیں، مگر پوری قوم و ملت کی تباہی جو اس کا لازمی نتیجہ ہے اس کا کوئی دیکھنے سننے والا نہیں، اگر پوری امت کی فلاح و ترقی پیش نظر ہو تو اس کے سوا کوئی راہ نہیں کہ ان قرآنی اصول کو مضبوطی سے پکڑا جائے، خود بھی اس پر عمل کیا جائے اور دوسروں کو بھی اس کا پابند بنانے کی کوشش کی جائے۔
Top