Tafseer-e-Haqqani - Al-Hajj : 63
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً١٘ فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّةً١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌۚ
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہیں دیکھا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ اَنْزَلَ : اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَتُصْبِحُ : تو ہوگئی الْاَرْضُ : زمین مُخْضَرَّةً : سرسبز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَطِيْفٌ : نہایت مہربان خَبِيْرٌ : خبر رکھنے والا
(اے مخاطب ! ) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی آسمان سے پانی برساتا ہے تو (اس سے) زمین سرسبز ہوجاتی ہے۔ بیشک اللہ (اپنے بندوں پر) مہربان اور ان کے حال سے واقف ہے ،
پھر اپنی قدرت اور جبروت کا اظہار عالم میں گوناگوں تصرفات سے ظاہر کرتا ہے بقولہ یولج الیل فی النہار الی ان الانسان لکفور اور انہیں جملوں میں انسان ناقدرے اور ہٹ دھرم کو اپنی بیشمار نعمتیں بھی یاد دلاتا ہے۔ شبہ ہوتا تھا کہ جب خدا تعالیٰ ایسا رحیم ‘ کریم ‘ منعم ہے اور اس کی رحمت اور اس کے فیض سے کوئی خالی نہیں تو پھر بندوں کو محمد ﷺ کی معرفت پابندی شریعت و احکام کی کیوں تکلیف دیتا ہے ؟ اس کے جواب میں فرماتا ہے لکل امۃ جعلنا منسکا ھم ناسکوہ کہ ہم نے بندوں کی بھلائی کے لیے ہر امت کے لیے ان کے مناسب ان کے انبیاء اور ہادیوں کی معرفت (جیسا کہ فرمایا ہے ولکل قوم ھاد، وان من امۃ الاخلافیھا نذیر) ایک شریعت اور رستہ بتا دیا ہے اور فلاح دارین کے لیے ایک قانون دیا ہے جس کے وہ پابند تھے فلا ینازعنک فی الامر پھر ان کو تم سے اے نبی ! اس امر میں جھگڑا کرنا مناسب نہیں وادع الی ربک انک علیٰ ھدی مستقیم آپ سب لوگوں کو ان کے رب کی طرف بلائیے کیونکہ تم سیدھے رستے پر ہو۔ دلائل میں نظر کر کے ہر عاقل جان سکتا ہے وان جادلوک فقل اللہ اعلم بما تعملون اور اگر اس کے بعد بھی وہ تم سے جھگڑا کریں تو کہہ دو کہ اللہ تمہارے کام سے خوب واقف ہے وہ آپ سمجھ لیگا اللہ یحکم بینکم یوم القیامۃ فیما کنتم فیہ تختلفون اور قیامت کے دن آپ فیصلہ کر دے گا (منسک شریعت اور رستہ یہ ابن عباس ؓ کا قول ہے جیسا کہ عطا نے نقل کیا ہے اور یہی ٹھیک ہے جیسا کہ خود فرماتا ہے لکل امۃ جعلنا منکم شرعۃ و منہا جا بعض نے مذبح و قربانی بھی مراد لی ہے) اللہ کو ہر بات معلوم ہے الم تعلم ان اللہ یعلم ما فی السماء والارض ان ذلک فی کتاب ان ذلک علی اللہ یسیر اے مخاطب ! تو خود جانتا ہے کہ اللہ کو آسمان اور زمین کی ہر بات معلوم ہے اور یہ سب کچھ لوح محفوظ میں ہے اور یہ بات اللہ کے نزدیک کچھ مشکل نہیں بلکہ بہت آسان ہے مگر باوجود اس کے ان لوگوں کی عقل کو دیکھئے کہ شریعت و طریقہ انبیاء کو بگاڑ کر ویعبدون من دون اللہ مالم ینزل بہ سلطانا ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں کہ جن کے لیے اللہ کی طرف سے کوئی بھی سند نہیں۔ یعنی یہ جو کہتے ہیں کہ فلاں بزرگ خدا کے گھر کے مختار ہیں جو چاہتے ہیں کرتے ہیں یا قیامت میں ہمارے لیے سفارش کریں گے اس بات پر ان کے پاس خدا کے ہاں سے کیا دلیل ہے محض خیالی بات ہے اور اس سے بڑھ کر وما لیس لہم بہ علم ان چیزوں کو پوجتے ہیں کہ جنہیں جانتے بھی نہیں۔ علم حقیقی ان کی ماہیت کا نہیں رکھتے جیسا کہ ہزاروں معبود خیالی ہنود کے ہیں کالی پری ‘ سبز پری ‘ فلاں دیو ‘ فلاں بھوت۔ یہی حال عرب کی قوموں کا تھا مگر واذا تتلی علیہم آیتنا بینات تعرف فی وجوہ الذین کفروا المنکر جب ان کو رد شرک کے بارے میں ہماری کھلی کھلی آیتیں اور دلائل سنائے جاتے ہیں تو سن کر منہ بناتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آیتوں کے سنانے والوں پر حملہ کریں واذا تتلی علیہم آیتنا الخ فرماتا ہے کہ یہ کیا ناگوار ہے جہنم کی آگ اس سے زیادہ ناگوار ہوگی جو منکروں کے لیے مقرر ہوچکی ہے قل اَفَاُنَبِّئْکُمْ الخ
Top