Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 63
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً١٘ فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّةً١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌۚ
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہیں دیکھا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ اَنْزَلَ : اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَتُصْبِحُ : تو ہوگئی الْاَرْضُ : زمین مُخْضَرَّةً : سرسبز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَطِيْفٌ : نہایت مہربان خَبِيْرٌ : خبر رکھنے والا
دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں سے پانی برساتا ہے تو زمین اس سے سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے۔ بیشک اللہ بڑا ہی باریک بین اور خبر رکھنے والا ہے
وعدہ نصرت کی تائید میں آفاق کی شہادت الم تم کے خطاب پر ہم مختلف مقامات میں بحث کرچکے ہیں کہ یہ مخاطب گروہ کے ایک ایک فرد کو توجہ دلانے کے لئے آتا یہ۔ اوپر کی آیات میں وعدہ نصرت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کے حوالہ سے مئوند کیا ہے۔ اس آیت میں اپنی صفات کے ساتھ آفاق کی شہادت بھی شامل کردی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی موجودہ ظاہری حالات کی ناسازگاری کو دیکھ کر خدا کی نصرت کے ظہور کو بعید از امکان نہ سمجھے۔ یہ ہر شخص نہیں سمجھ سکتا کہ خدا کی شان کس طرح ظاہر ہوگی اور اس کے ہاتھ کدھر سے نمودا رہوں گے۔ زمین کو دیکھتے ہو کہ بالکل خشک اور چٹیل پڑی ہوتی ہے، نہ اس پر سبزہ اور روئیدگی کا کوئی اثر ہوتا اور نہ افق پر کسی جانب ابر کا کوئی نشان لیکن جب خدا چاہتا ہے تو اس کی بھیجی ہوئی ہوائیں بادلوں کے قافلے کے قافلے ہانک کر لاتی اور فضا میں پھیلا دیتی ہیں۔ پھر چشم زدن میں ساری زمین جل تھل ہوجاتی ہے اور دیکھتے دیکھتے ہر طرف سبزہ کی باغات بچھ جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اپنی رحمت و نصرت کی گھٹائیں اپنے ان بندوں کے لئے بھی بھیج دے گا اگرچہ ظاہری حالات کتنے ہی ناسازگار ہوں۔ لطیف خبیر کا حوالہ نہایت لطیف طریقہ سے لطیف خبیر کی صفات کا حوالہ یہاں نہایت لطیف طریقہ سے آیا ہے۔ لطیف کے معنی باریک بین اور دقیقہ رس کے ہیں۔ یعنی وہ اپنی تدبیروں کو اس طرح بروئے کار لاتا ہے کہ کسی کو ان کا سان گمان بھی نہیں ہوتا۔ وہ بڑی خبر رکھنے والا ہے۔ لوگ صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں لیکن وہ ماضی کے پردوں میں جو کچھ چھپا ہوا ہے اس سے بھی باخبر ہے اور مستقبل کے اوٹ میں جو کچھ ہے اس سے بھی باخبر ہے۔
Top