Madarik-ut-Tanzil - Al-Hajj : 63
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً١٘ فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّةً١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌۚ
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہیں دیکھا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ اَنْزَلَ : اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَتُصْبِحُ : تو ہوگئی الْاَرْضُ : زمین مُخْضَرَّةً : سرسبز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَطِيْفٌ : نہایت مہربان خَبِيْرٌ : خبر رکھنے والا
کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا آسمان سے مینہ برساتا ہے تو زمین سرسبز ہوجاتی ہے ؟ بیشک خدا باریک بین اور خبردار ہے
63: اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآ ئِ مَآ ئً (کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ پانی اوپر سے اتارتا ہے) یعنی بارش کی صورت میں فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّۃً (جس سے زمین سرسبز ہوجاتی ہے) نبتات کے ذریعہ اس کے بعد کہ وہ سیاہ خشک تھی۔ لطیفہ نحویہ : تصبح صیغہ مضارع ہے۔ ماضی نہیں لایا گیا تاکہ معلوم ہو کہ بارش کا اثر زمانہ درزمانہ باقی رہتا ہے جیسا کہتے ہیں۔ انعم علی فلان فاروحُ واغدوشاکرًا لہٗ میں صبح و شام اس کا شکر گزار رہونگا۔ اگر تم یوں کہتے فرحت، و غدوت، یہ مفہوم ہرگز پیدا نہ ہوتا۔ البتہ تصبح کا لفظ مرفوع لایا گیا۔ استفہام کے جواب میں منصوب آنا چاہیے تھا وہ نہیں آیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر منصوب لاتے تو مقصد باطل ہوجاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اس کا مطلب اخضرار کو ثابت کرنا ہے۔ اگر نصب لاتے تو اخضرار کی نفی ہوجاتی ہے جیسا تم اپنے دوست کو کہو : الم ترانی انعمت علیک فتشکرُ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے تم پر احسان کیا پس شکریہ ادا کرتے رہو۔ اور اگر تم متشکر نصب سے پڑھو تو تم نے اس کے شکریے کی نفی کی اور شکریہ نہ کرنے کی کوتاہی پر تم اس کا شکوہ کر رہے ہو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے تم پر احسان کیا پس تم شکر یہ کیوں ادا نہیں کرتے ؟ اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ (بیشک اللہ تعالیٰ لطف والے ہیں) اس کا عمل یا فضل ہر چیز تک پہنچنے والا ہے۔ خَبِیْرٌ (مطلع ہیں) اپنی مخلوقات کے مصالح اور منافع سے۔ نمبر 2۔ اللطیفؔ کا معنی دقیق تدابیر کے ساتھ خاص ہیں۔ اور الخبیر ہر قلیل و کثیر کا احاطہ کرنے والے ہیں۔
Top