بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - At-Taghaabun : 1
وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَتِ : کہا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتہ (جمع) يٰمَرْيَمُ : اے مریم اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ اصْطَفٰىكِ : چن لیا تجھ کو وَطَهَّرَكِ : اور پاک کیا تجھ کو وَاصْطَفٰىكِ : اور برگزیدہ کیا تجھ کو عَلٰي : پر نِسَآءِ : عورتیں الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
اور (یاد کرو) جب کہ فرشتوں نے کہا اے مریم ! تم کو خدا نے برگزیدہ کرلیا اور پاک کردیا اور تم کو دنیا کی عورتوں پر فضیلت دی۔
یوسف مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ملک مصر میں لے گیا اور وہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوشیار ہوئے۔ جوان ہو کر (جب ہیرودیس بادشاہ نے یہودیہ کی موت کی خبر سنی) تو ملک شام میں آئے۔ ادھر حضرت یحییٰ زکریا کے بیٹے جو ان سے کئی مہینے پہلے پیدا ہوچکے تھے ٗ جوان ہوگئے تھے۔ لوگوں کو تعلیم دیتے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کرتے تھے۔ آخر بادشاہ وقت نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ملک یہود کے جلیل اور یروشلم وغیرہ شہروں میں وعظ فرماتے ٗ معجزات دکھاتے رہے لیکن یہود کو ہر روز ان سے عداوت بڑھتی گئی۔ باوجودیکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے تورات کی تصدیق کی اور شریعت موسوی کی بحسب وقت ترمیم کی کیونکہ موسیٰ اور عیسیٰ ( علیہ السلام) میں سینکڑوں برس کا فاصلہ ہے۔ زمانہ کے مقتضیات کا ضرور اثر ظاہر ہوا جو ترمیم کی حاجت پڑی چناچہ انہوں نے وہ جو سبت کے روز بےحد قیدیں تھیں کہ یوں نہ کرے اور یوں کرے یا اور ایسے ہی مسائل تھے ان میں بحکم الٰہی تخفیف کردی اور ان ممنوع حرام باتوں کو درست کردیا جس کی پوری تفصیل کتاب احبار اور اناجیل اربعہ کے ملاحظہ سے معلوم ہوتی ہے اور معجزات بھی دکھائے اور بہت کچھ یہود کی بد اقبالیوں اور ناشائستگیوں کی اصلاح کرنی چاہی مگر اس قوم کی حس باطنی جاتی رہی تھی۔ یوں تو مسیحا نے کئی مردہ زندہ کئے مگر یہود کا اقبال مردہ زندہ نہ ہوسکا۔ آخر جب ان کی سرکشی دیکھی تو فرمایا کہ کون خدا کی حمایت میں آتا ہے ؟ بارہ شخص کہ جن کو حواری (یعنی خدا کی طرف رجوع کرنے والے یا روشن دل) کہتے ہیں اور ان کے یہ نام ہیں حضرت کے صدق دل سے مرید اور شاگرد خاص ہوگئے۔ شمعون جس کو پطرس بھی کہتے ہیں۔ اندریاس شمعون کا بھائی یعقوب بن زیدی ‘ یوحنا ‘ ان کا بھائی فیلسوس ‘ برتھو لما ‘ تھوما ‘ متی ‘ یعقوب ‘ بن ہلفالبی جس کو تہدی بھی کہتے تھے۔ شمون کنعانی ‘ یہودا اسکریوتی اب ایک دینداروں کی جماعت قائم ہوگئی۔ آخر کار یہود نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حکام سے شکایتیں کرکے پلاطوس حاکم کو ان کے قتل پر آمادہ کیا اور جاسوس دوڑ گئے۔ حضرت کو ایک جگہ سے گرفتار کرکے لائے اور طرح طرح کی اذیتیں دینی شروع کیں اور بہت کچھ مکرو دائو ان کے قتل کے لئے کیا مگر خدا کا دائو سب پر غالب ہے۔ اس نے یہ کیا کہ انہیں یہودیوں میں سے ایک کو حضرت مسیح کی صورت میں کردیا اور مسیح (علیہ السلام) کو ملائکہ آسمان پر لے گئے۔ یہود نے مسیح سمجھ کر اس شخص کو سولی دی اور بڑی اذیت سے مارا۔ فائدہ : فرشتوں نے مریم سے حضرت عیسیٰ مسیح (علیہ السلام) کی بابت یہ تمام حال بیان کردیا تھا کہ وہ ایسے اور ایسے ہوں گے۔ (1) ان کا نام عیسیٰ مسیح ابن مریم ہوگا (2) وہ دنیا و آخرت میں معزز اور خدا کے مقربین میں سے ہوں گے۔ (3) لڑکپن اور ادھیڑ عمر میں لوگوں سے یہ کلام کریں گے برخلاف اور لوگوں کے کہ وہ شیر خوارگی میں کلام نہیں کرتے۔ (4) ان کو خدا کتاب اور حکمت توریت و انجیل سکھائے گا۔ (5) وہ لوگوں سے کہیں گے کہ میں خدا کی طرف سے معجزات لے کر آیا ہوں جن کا بعد میں بیان ہے (6) میں توریت کو پورا کرنے آیا ہوں۔ اس کا مصدق ہوں نہ مکذب۔ (7) میں تم پر سے سخت احکام کا بوجھ بھی ہلکا کرنے آیا ہوں جو چیزیں بنی اسرائیل پر ان کی سخت دلی سے حرام کردی گئی ہیں۔ بعض کو مباح کردیتا ہوں۔ ان سب باتوں کے بعد اصلی بات بھی کہی کہ خداوند میرا اور تمہارا سب کا خدا ہے۔ اس کی عبادت کرو نہ میری نہ کسی اور مخلوق کی۔ یہ ہے راہ راست۔ مگر بنی اسرائیل سخت دل کا ہے کو ماننے والے تھے۔ حضرت نے ان کے انکار و مخالفت کو معلوم کرکے کہا کوئی ہے کہ خدا کے لئے میرا مددگار بنے ؟ حواری بول اٹھے کہ ہم خدا کے دین کے مددگار اور ہم خدا پر ایمان لائے۔ پھر دعا کی کہ الٰہی ہم کو گواہوں میں لکھ لے ٗ ہم رسول کے مطیع ہوگئے۔ اس میں آنحضرت ﷺ کے مخاطبوں کو ترغیب دلائی جاتی ہے۔ پھر کس خوبی سے قصہ کو تمام کرتا ہے کہ یہود نے ان سے بڑی بدسلوکی کی جس پر خدا نے بھی ان سے بدسلوکی کی کہ رومی بادشاہ ان پر چڑھ آئے اور مار کر ستیاس کر گئے۔ ان کی بدسلوکی کو اور اس کے بدلہ کو بطور استعارہ مکر سے تعبیر کیا۔ 12 منہ ابحاث : اب ہم یہاں چند ابحاث بیان کرتے ہیں تاکہ ان آیات کا مطلب ناظرین کے بخوبی سمجھ میں آجاوے اور پھر آیندہ سورة مریم وغیرہا میں اعادہ کی کچھ حاجت نہ رہے۔ واللہ ولی التوفیق۔ بحث اول : مفردات الفاظ کی تشریح۔ المحراب اونچی اور عمدہ جگہ اصمعی کہتے ہیں۔ بالا خانہ بعض کہتے ہیں اس جگہ مراد مسجد ہے اس لئے کہ یہ بسبب عبادت کے شیطان سے لڑائی کی جگہ ہے جو حرب سے مشتق ہے۔ حصور احصر سے مشتق ہے جس کے معنی بند ہونے اور رکنے کے ہیں۔ کہتے ہیں حصر الرجل اعتقل بطنہ یہ فعول بمعنی مفعول ہے یعنی شہوات سے روکا گیا جس کو محفوظ اور معصوم کہنا چاہیے۔ عاقر عقر سے مشتق ہے جس کے معنی منقطع ہونے کے ہیں یعنی اولاد سے منقطع ہوگئی جس کو بانجھ کہتے ہیں۔ رمز کے معنی حرکت کے ہیں۔ چونکہ دریا میں تموج ہوتا ہے اس لئے اس کو عرب راموز کہتے ہیں۔ یہاں مراد اشارہ ہے جو ہاتھ پائوں یا آنکھ بھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ العشی دن ڈھلے سے غروب تک کا وقت والا بکار نئی اور اول چیز اور اسی لئے باکورہ نئے پہلوان کو کہتے ہیں اور نئی ناکت خدائی کو بکر کہتے ہیں۔ اس سے مراد طلوع آفتاب سے دوپہر تک کا وقت ہے۔ بعض نے ابکار بالفتح پڑھا ہے۔ سو یہ اشجار کی طرح جمع ہوگا۔ انباء نباء کی جمع ہے جس کے معنی خبر ہیں۔ انصار اور حواری کے معنی ہم بیان کرچکے ہیں۔ بحث دوسری : اس مقام پر عیسائی نکتہ چین قرآن مجید پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح اور مریم کے اور اسی طرح یوحنا یعنی یحییٰ کے قصہ میں چند غلطیاں قرآن میں بیان ہوئیں جو تاریخی واقعات سے علاقہ رکھتی ہیں (1) یہ کہ مریم کی ماں کا نذر ماننا اور پھر مریم کو ہیکل میں بھیج دینا اور وہاں کاہنوں میں باہم ان کی پرورش کی بابت گفتگو ہو کر زکریا کے نام قرعہ نکلنا اور زکریا کا مریم کو بےموسم کے پھل کھاتے دیکھ کر اپنے لئے اولاد کے واسطے دعا کرنا انجیل سے ثابت نہیں۔ اس لئے یہ باتیں غلط ہیں۔ (2) قرآن میں لکھا ہے کہ زکریا تین روز تک بغیر اشارہ کے کسی سے کلام نہ کریں گے۔ حالانکہ انجیل لوقا کے اول باب درس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زکریا کو یوں فرشتہ نے کہا کہ تو جب تک یہ باتیں واقع نہ ہو لیں گونگا ہوجاوے گا ‘ کسی سے بول نہ سکے گا اور اسی باب کے 64 درس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب یحییٰ پیدا ہوئے اور آٹھویں دن ان کا ختنہ ہوا اور ان کا نام یحییٰ رکھا گیا تب ان کی زبان کھلی جس کی مدت تخمیناً دس مہینے ہوتے ہیں۔ قرآن نے باوجود دعوائے الہام اور تصدیق انجیل کے کتنی غلطی کی۔ (3) لڑکپن میں مسیح کا کلام کرنا اور پھر پرندوں کا معجزہ کہ مٹی کے جانور بنا کر ان میں پھونک مارنا اور ان کا زندہ ہو کر اڑ جانا کہیں سے ثابت نہیں۔ قرآن نے اس کو کہاں سے لیا۔ ان اعتراضات کا جواب یہ ہے ٗ اول سوال کا جواب یوں ہے۔ اگر تاریخی باتیں انجیل اربعہ کے مصنف نے اپنی مختصر تاریخوں میں نہ لکھیں تو اس سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ امور غلط ہیں۔ دیکھو زکریا کا فرشتہ سے بشارت پانا اور یحییٰ نام رکھنا وغیرہ باتیں صرف لوقا نے لکھی ہیں۔ اوروں نے نہیں۔ پھر کیا اس وجہ سے یہ غلط ہوسکتی ہیں ؟ اسی طرح مسیح کے پیدا ہونے کے دنوں میں مجوسیوں کو ایک ستارہ دکھائی دینا اور اس کا ان کے آگے آگے چلنا سوائے متی کے اور کسی نے نہیں لکھا۔ اسی طرح ان چاروں مؤرخوں کا باہم سینکڑوں باتوں میں تفاوت بیان پایا جاتا ہے۔ یہی تیسرے اعتراض کا بھی جواب ہے اور تائید اس کی یہ ہے کہ یوحنا اپنی انجیل کے سب سے اخیر میں یہ لکھتا ہے کہ اور بھی بہت سے کام ہیں جو یسوع نے کئے۔ اگر وہ جدا جدا لکھے جاتے تو میں گمان کرتا ہوں کہ کتابیں جو لکھی جاتیں دنیا میں نہ سماتیں۔ پھر کیا مسیح نے یہی چند باتیں اور یہی چند کام کئے ہیں جو انا جیل اربعہ میں ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ علاوہ اس کے یہودی مورخوں اور دیگر اناجیل سے بھی ان باتوں کا پتا لگتا ہے اور ان اناجیل کے زیادہ معتبر ہونے کی وجہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے سب تاریخی واقعات غلط ہوں۔ دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ لوقا نے نہ زکریا کو دیکھا نہ یحییٰ کو نہ حضرت عیسیٰ کو یہ مورخ سنی ہوئی باتیں لکھتا ہے جس پر گمان ہوسکتا ہے کہ یا راوی نے غلطی کی یا خود لوقا سے سہو ہوگیا یا نسخہ میں اور غلطیوں کی طرح یہ بھی واقع ہوئی اور جو تطبیق کرو تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ عدد زبان عرب میں انحصار کے لئے نہیں ہوتا۔ ہمارے عرف میں کہتے ہیں۔ دو دن کی زندگی میں آدمی کیا کرتا ہے۔ مراد تھوڑی زندگی ہے اسی طرح تین روز سے یہ قلیل مدت مراد ہے جو تخمیناً دس مہینے مورخ نے بیان کئے۔ قرآن انجیل لوقا کی تصدیق کا مدعی نہیں۔ تیسری بحث : ان سے بڑھ کر دہریے اور ان کے مقلد نیچر ان آیات کے صاف اور سیدھے مطلب کو اسی قاعدہ فاسدہ پر کہ خرق عادت محال ہے ٗ عجب تاویلیں کرکے الٹ پلٹ کرتے ہیں۔ چناچہ نیچر مفسر نے اس مقام پر حضرت مریم کو غیب سے روزی پہنچنے کا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بےباپ کے پیدا ہونے کا انکار کیا اور یہ تاویل کی ہے کہ حضرت یوسف نجار سے پیدا ہوئے تھے۔ صرف یہ بات تھی کہ رخصت کرکے لے جانے سے پہلے یوسف مریم سے ہم بستر ہوگئے تھے۔ چونکہ یہ بات یہود میں مذموم تھی جو دونوں کو شرم و حجاب کا موجب ہوا ہو اور زکریا اور بی بی مریم نے جو فرشتوں سے باتیں کیں وہ ان کا خیال مجسم یا خواب تھا اور چونکہ اس مذہب کا یونانیوں میں رواج دینا منظور تھا اور ان میں ایسی باتیں ہمیشہ سے باعث بزرگی سمجھی جایا کرتی تھیں۔ چناچہ حکیم افلاطون کا حمل بھی بےباپ کے ان میں مشہور تھا۔ اس غرض سے عیسائی معلموں نے یہ بات مشہور کردی اور اسی مشہور بات کو مفسروں نے قرآن کی تفاسیر میں لکھ دیا اور اسی طرح لڑکپن میں مسیح کا کلام کرنا اور مٹی کے جانور بنا کر ان میں پھونک مار کر زندہ کردینا اور مردہ کو زندہ کردینا ہے جس سے دل مردہ کو زندہ کرنا مراد ہے اور چشم باطن کے اندھے کو ہدایت دینا اور بیماری مرض قلب کو شفا دینا اندھے اور کوڑھی کے اچھا کرنے سے مراد ہے اور ایسے محاورات حضرت عیسیٰ کی تقریروں میں بیشتر پائے جاتے ہیں۔ یہ ان کی تمام تقریروں کا خلاصہ ہے۔ چونکہ اس لغو گفتگو کا مدار وہی تین چار فاسدعقیدے ہیں کہ جن کا ابطال ہم مقدمہ میں خوب کرچکے ہیں۔ اس لئے اس بارے میں دوبارہ قلم اٹھانا فضول سمجھتے ہیں۔ افسوس یہ لوگ صرف برائے نام مسلمان کہلانے کے لئے قرآن مجید کی فضول تاویلیں کرکے اپنا مضحکہ اڑاتے ہیں اور تاریخی واقعات کو غلط کہہ کے محققوں میں حقیر بنتے ہیں مگر ان کو سرے سے اسلام ہی کا انکار کردینا تھا۔ اس زمانہ میں اسلام سے کیا دنیا ملتی ہے ؟ چوتھی بحث : ذلک من انباء الغیب نوحیہ الیک ان واقعات کا اس طور پر مخالفوں کو بتانا آنحضرت ﷺ کے لئے بڑا معجزہ ہے۔ نہ آپ نے تورات پڑھی تھی نہ انجیل نہ کوئی کتاب اور عمر کا اکثر حصہ مکہ میں گذرا جہاں کوئی بھی ذی علم نہ تھا۔ اہل کتاب کا تو کیا ذکر پھر مدینہ میں آکر باوجود مخالفت یہود و نصاریٰ کے یہ کیونکر ممکن تھا کہ آنحضرت ﷺ ان سے کچھ پڑھنے سیکھنے جاتے اور اگر ایسا ہوتا تو نصاریٰ اور دیگر اہل اسلام کے روبرو یہ دعویٰ کس طرح سے کرتے کہ میں غیب کی خبریں بطور الہام بیان کرتا ہوں ؟ باوجود اس کے پھر ان واقعات کو صحیح صحیح بیان کرنا بالخصوص اہل کتاب کے علماء کے سامنے اس طرح سے کہ جن کو کوئی پڑھا ہوا بھی بیان نہ کرسکے۔ اگر اعجاز نہیں تو اور کیا ہے ؟ گرچہ بعض باتیں بعض کے لئے خرق عادت نہیں مگر دوسرے کے لئے خرق عادت سمجھی جاتی ہیں۔ کلام کرنا جو ان تندرست کی نسبت کچھ بھی تعجب کی بات نہیں۔ البتہ شیر خوار لڑکے کا کلام کرنا تعجب ہے۔ اسی طرح کسی گذشتہ حال کا اس کے دیکھنے والے یا تاریخ کی کتابیں پڑھنے والے کو تعجب نہیں اور کے لئے ہے۔
Top