Tafseer-e-Haqqani - Al-Hashr : 15
كَمَثَلِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَرِیْبًا ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۚ
كَمَثَلِ : حال جیسا الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے قبل قَرِيْبًا : قریبی زمانہ ذَاقُوْا : انہوں نے چکھ لیا وَبَالَ اَمْرِهِمْ ۚ : اپنے کام کا وبال وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
ان کا حال تو پہلوں جیسا ہی ہے کہ جنہوں نے اپنے کام کی سزا پائی ہے اور ان کو (آخرت میں بھی) سخت عذاب ہے
ترکیب : کتشبیہ مثلم قریبا ای استقروا من قبلھم اوذاقواو بال امرھم قریبا ای عن قریب فکان عاقبتھما یقرء بالنصب علی الخبر وانھما فی النار و یقرء بالعکس دخالدین حال دحسن لماکرر الظرف ویقرء خالدان علی انہ خبران، ابن الصائغ۔ تفسیر : یہود بنی نضیر نے اپنی نالائقی کی ایسی سزا پائی جیسا کہ ابھی ان سے پہلے لوگ اپنے افعالِ بد کا وبال اور سزا پا چکے ہیں۔ دنیا میں اور آخرت میں ان کے لیے سخت عذاب ہے۔ ان بنی نضیر سے پہلے تھوڑے دنوں آگے کون لوگ آسمانی تازیانے سے پٹے تھے ؟ مجاہد کہتے ہیں مشرکین مکہ تھے جو بدر میں قتل اور قید ہوئے بنی نضیر کے واقعے سے پہلے۔ ابن عباس ؓ عنھما کہتے ہیں بنی قینقاع کی طرف اشارہ ہے، بعض کہتے ہیں یہود بنی قریظہ کی سزا کی نسبت ارشاد ہے کہ ان کو ایسی سزا ہوئی جو تھوڑے دنوں آگے بنی نضیر کو ہوئی تھی بنی نضیر کے دو برس بعد یہود کے دوسرے قبیلے ہر جس کو بنی قریظہ کہتے تھے اور وہ بھی مدینے کے قریب رہتے تھے ان کی بدعہدی سے آفت ہوئی۔ کمثل الشیطان الخ مدینے کے منافق جو یہود نبی نضیر کو حضرت ﷺ کے مقابلے میں جھوٹی باتوں کے گھمنڈ پر ابھار رہے تھے اور وہ کمبخت ان کی باتوں میں آ کر خراب ہوئے اس کی تمثیل بیان فرماتا ہے کہ یہود بنی نضیر کے بہکانے کی مثال ایسی ہے کہ جب شیطان آدمی کو کافر بنا دیتا ہے اور جب بہکا چکتا ہے تو شیطان آپ الگ ہوجاتا ہے اور الٹی ملامت کرنے لگتا ہے کہ میں تجھ سے بری ہوں، مجھے اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے۔ اسی طرح منافق بہکا کر الگ ہوگئے اور جب ان پر آ پڑی تو انہیں کو برا بھلا کہنے لگے۔ انجام کار شیطان اور اس کے بہکے ہوئے آدمی کا ٹھکانا جہنم ہوتا ہے اور ظالموں کی سزا بھی یہی ہے۔ یہ ایک بڑی عبرت انگیز نصیحت دل پر اثر کرنے والے الفاظ میں انسان کے لیے ہے کہ وہ کسی بہکانے پھسلانے والے کی باتوں میں آ کر برباد نہ ہو، وہ بہکانے والا بوقت مصیبت ساتھ نہیں دیتا، الگ ہوجاتا ہے۔ شیطان سے مراد ابلیس ہے وہ ہر روز انسان کو بہکاتا اور کفر و بدکاری میں مبتلا کرتا ہے۔ انسان کے اندر قوائے بہیمیہ و شہوانیہ و غضبیہ تین زورآور کلیں ہیں جن تک بذریعہ سرایت شیطان کا ہاتھ پہنچتا ہے۔ اگر مدد غیبی کا محافظ نہ روکے تو یہ بدبخت ان میں ناجائز تحریک پیدا کردیتا ہے۔ انسان کی ان تینوں قوتوں کی ناجائز تحریک اور فطری مڑک سے دوسری طرف روانگی شیطانی تحریک و تضلیل ہے جس طرح ملائکہ کو ان چیزوں کی اصلاح کے لیے بذریعہ الہام و تلقی رسائی ہے اسی طرح شیطان کو فساد کے لیے اور خود انسانی خیالات فاسدہ جو خلاف فطرت پیدا ہوتے ہیں اور بنی آدم کے بدراہ کرنے والوں کی تائید و تحریک بھی تضلیل شیطانی ہے۔ بعض مفسرین نے کمثل الشیطان کے الفاظ سے چسپاں کرنے کے لیے ایک قصہ طول و طویل نقل کیا ہے جس میں برصیصیا راہب کے پاس شیطان کا بہ شکل راہب آنا اور ان کو اسماء سکھانا اور بیماروں کا بھیجنا اور ان میں بادشاہ کی لڑکی کا آنا اور برصیصیا کا اس سے زنا کرنا اور اس کو حمل رہ جانا اور بدنامی دور کرنے کے لیے بمشورہ شیطان اس کا قتل کر کے دبانا اور شیطان کا جا کر خبر دینا اور برصیصیا کا دار پر چڑھنا اور اس وقت شیطان کا بامید خاص سجدہ کرنا اور پھر شیطان کا ملامت کر کے غائب ہوجانا اور برصیصیا کا حالت کفر میں مرنا نقل کیا ہے جس کا صحیح احادیث سے ثبوت نہیں ہاں کہیں ایسا ہوا ہو تو کچھ تعجب بھی نہیں۔
Top