Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Ahzaab : 53
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُ١ۙ وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ١٘ وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ١ؕ وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ١ؕ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ١ؕ وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتَ : گھر (جمع) النَّبِيِّ : نبی اِلَّآ : سوائے اَنْ : یہ کہ يُّؤْذَنَ : اجازت دی جائے لَكُمْ : تمہارے لیے اِلٰى : طرف (لیے) طَعَامٍ : کھانا غَيْرَ نٰظِرِيْنَ : نہ راہ تکو اِنٰىهُ ۙ : اس کا پکنا وَلٰكِنْ : اور لیکن اِذَا : جب دُعِيْتُمْ : تمہیں بلایا جائے فَادْخُلُوْا : تو تم داخل ہو فَاِذَا : پھر جب طَعِمْتُمْ : تم کھالو فَانْتَشِرُوْا : تو تم منتشر ہوجایا کرو وَلَا مُسْتَاْنِسِيْنَ : اور نہ جی لگا کر بیٹھے رہو لِحَدِيْثٍ ۭ : باتوں کے لیے اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : یہ تمہاری بات كَانَ يُؤْذِي : ایذا دیتی ہے النَّبِيَّ : نبی فَيَسْتَحْيٖ : پس وہ شرماتے ہیں مِنْكُمْ ۡ : تم سے وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَسْتَحْيٖ : نہیں شرماتا مِنَ الْحَقِّ ۭ : حق (بات) سے وَاِذَا : اور جب سَاَلْتُمُوْهُنَّ : تم ان سے مانگو مَتَاعًا : کوئی شے فَسْئَلُوْهُنَّ : تو ان سے مانگو مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ۭ : پردہ کے پیچھے سے ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات اَطْهَرُ : زیادہ پاکیزگی لِقُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں کے لیے وَقُلُوْبِهِنَّ ۭ : اور ان کے دل وَمَا كَانَ : اور (جائز) نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تُؤْذُوْا : کہ تم ایذا دو رَسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کا رسول وَلَآ : اور نہ اَنْ تَنْكِحُوْٓا : یہ کہ تم نکاح کرو اَزْوَاجَهٗ : اس کی بیبیاں مِنْۢ بَعْدِهٖٓ : ان کے بعد اَبَدًا ۭ : کبھی اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات كَانَ : ہے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک عَظِيْمًا : بڑا
مومنو ! پیغمبر کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر اس صورت میں کہ تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جائے اور اس کے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے لیکن جب تمہاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو یہ بات پیغمبر کو ایذا دیتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتے تھے (اور کہتے نہیں تھے) لیکن خدا سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا اور جب پیغمبر کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو یہ تمہارے اور انکے (دونوں کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے) اور تم کو یہ شایان نہیں کہ پیغمبر خدا کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ انکی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو بیشک یہ خدا کے نزدیک بڑا گناہ (کا کام) ہے
کچھ حضرات صبح و شام رسول اکرم کے گھروں میں جایا کرتے تھے اور کھانے کے انتظار میں بیٹھ کر ازواج مطہرات کے ساتھ گفتگو کرتے رہتے اس سے رسول اکرم کو رنجش ہوئی مگر آپ شرمائے کہ انہیں باہر جانے کا حکم دیں یا بغیر اجازت اندر آنے سے منع کردیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے منع فرما دیا۔ کہ اے ایمان والو نبی کے گھروں میں بغیر اجازت مت جایا کرو اور یہ کہ جس وقت تمہیں کھانے کے لیے بلایا جائے مگر پھر بھی ایسے وقت جاؤ کہ اس کھانے کے پکنے کے منتظر نہ ہو اور جب بلایا جائے تو چلے جایا کرو اور جس وقت کھالو تو فورا اٹھ کر چلے آیا کرو اور باتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو۔ یہ بغیر اجازت جانا بیٹھے رہنا اور پھر ازواج مطہرات کے ساتھ باتیں کرنا ان چیزوں سے نبی اکرم کو ناگواری ہوتی ہے سو وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور زبان سے اٹھ کر چلے جانے کو نہیں فرماتے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اٹھ کر چلے آنے اور بلا اجازت جانے کی ممانعت کرنے میں کوئی لحاظ نہیں کرتے۔ اور جب تمہیں ازواج مطہرات سے کوئی ضروری مسئلہ پوچھنا ہو تو پردہ کے باہر سے کھڑے ہو کر پوچھو۔ یہ چیز آئندہ بھی سب کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے۔ اور تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ اس قسم کے طرز عمل سے رسول اکرم کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات سے کبھی نکاح کرو۔ یہ اللہ کے نزدیک بڑی سخت نافرمانی کی بات ہے جس پر زبردست گناہ ہے۔ یہ آیت طلحہ بن عبید اللہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے (نزول حرمت سے قبل) انہوں نے حضور کے بعد حضرت عائشہ سے شادی کرنے کا ارادہ فرمایا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کی حرمت نازل فرمائی۔ شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا (الخ) بخاری و مسلم نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اکرم نے حضرت زینب بنت جحش سے شادی کی تو لوگوں کو کھانے کے لیے بلایا۔ چناچہ سب کھانے سے فارغ ہو کر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے آپ اٹھنے کے لیے کچھ بےقرار ہوئے مگر پھر بھی وہ لوگ نہیں اٹھے مجبورا حضور خود کھڑے ہوگئے جب آپ اٹھ کھڑے ہوئے تو اور لوگ بھی اٹھ گئے مگر پھر بھی تین آدمی بیٹھے رہے۔ پھر کچھ دیر بعد وہ بھی چلے گئے۔ چناچہ میں نے آکر آپ کو اطلاع دی کہ سب چلے گئے۔ چناچہ آپ آئے اور اندر تشریف لے گئے میں بھی اندر جانے لگا تو آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ اور امام ترمذی نے تحسین کے ساتھ حضڑت انس سے روایت کی ہے فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم کے ساتھ تھا آپ اپنی ان زوجہ مطہرہ کے دروازے پر آئے جن سے شادی کی تھی وہاں آپ نے لوگوں کو بیٹھے ہوئے پایا آپ واپس تشریف لے گئے کچھ دیر بعد آپ لوٹ کر تشریف لائے تو وہ لوگ جا چکے تھے آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا میں نے اس چیز کا ابو طلحہ سے ذکر کیا تو کہنے لگے ممکن ہے کچھ ایسا ہی ہوجائے جیسا تم کہتے تھے کہ ان عورتوں کے بارے میں کچھ حکم نازل ہوجائے چناچہ پردہ کا حکم نازل ہوگیا۔ اور امام طبرانی نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے فرماتی ہیں کہ میں رسول اکرم کے ساتھ ایک برتن میں کھایا کرتی تھی ایک مرتبہ حضرت عمر کا گزر ہوا آپ نے ان کو بلا لیا انہوں نے کھانا شروع کیا، کھانے کے دوران ان کی انگلی میری انگلی سے لگ گئی تو وہ کہنے لگے افسوس کاش تمہارے بارے میں میری بات پر عمل ہوتا تو کوئی آنکھ تمہیں نہ دیکھتی چناچہ فورا پردہ کا حکم نازل ہوگیا۔ اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص رسول اکرم کے پاس آیا اور دیر تک بیٹھا رہا۔ رسول اکرم تین مرتبہ اٹھ کر چلے تاکہ وہ بھی چل دے مگر اس نے ایسا نہ کیا اتنے میں حضرت عمر تشریف لائے اور رسول اکرم کے چہرہ انور پر ناگواری کے اثرات دیکھ کر اس شخص سے بولے کہ شاید تجھ کو رسول اکرم نے آنے کی اجازت دے دی ہے اس پر حضور بولے کہ میں تین مرتبہ اسی غرض سے کھڑا ہوا کہ ممکن ہے یہ بھی چل پڑے مگر اس نے پھر بھی ایسا نہیں کیا اس پر حضرت عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ پردہ لٹکا دیجیے کیونکہ آپ کی ازواج مطہرات دیگر تمام عورتوں کی طرح نہیں کیونکہ وہ زیادہ پاکیزہ دلوں والیاں ہیں۔ چناچہ پردہ کا حکم نازل ہوگیا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ دونوں واقعوں میں اس طرح مطابقت ممکن ہے کہ یہ واقعہ حضرت زینب کے شادی کے واقعہ سے پہلے واقع ہوا ہے اور قریب ہونے کی وجہ سے اس پر پردہ کے حکم کے نازل کا اطلاق کردیا گیا۔ اور پھر شان نزول کے متعدد ہونے میں بھی کوئی امر مانع نہیں اور ابن سعد نے محمد بن کعب سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم جب حجرہ مبارک میں جانے کے ارادہ سے کھڑے ہوتے تو سب آپ کے ساتھ ہو لیتے اور وہاں جاکر بیٹھ جاتے اور رسول اکرم کے چہرہ مبارک سے ناگواری کے اثرات نہ پہچان سکتے اور آپ حاضرین سے شرما کر کھانا تک تناول نہ فرماتے۔ چناچہ اس چیز کے بارے میں اللہ کی جانب سے ان پر غصہ کیا گیا کہ اے ایمان والو نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ شان نزول : وَمَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُــؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ (الخ) ابن ابی حاتم نے ابن زید سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم کو یہ بات پہنچی کہ فلاں شخص کہہ رہا ہے کہ رسول اکرم کے وصال کے بعد میں آپ کی فلاں بیوی سے شادی کرلوں گا اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ تمہیں جائز نہیں کہ رسول اکرم کو تکلیف پہنچاؤ۔ نیز ابن عباس سے روایت کیا گیا ہے کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے رسول اکرم کے بعد ازواج مطہرات میں سے کسی زوجہ مطہرہ کے ساتھ شادی کرنے کا ارادہ کیا تھا سفیان راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ حضرت عائشہ صدیقہ تھیں اور سدی سے روایت کیا گیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچتی ہے کہ طلحہ بن عبید اللہ نے کہا کیا محمد ہم سے ہماری چچا زاد لڑکیوں کا پردہ کراتے اور ہماری عورتوں سے شادی کرتے ہیں اگر آپ کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آیا تو ہم آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات سے شادی کرلیں گے اس پر یہ آیت مبارکہ نازل کی گئی۔ ابن سعد نے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ اس نے کہا تھا کہ جب رسول اکرم رحلت فرما جائیں گے تو میں حضرت عائشہ سے شادی کرلوں گا۔ اور جبیر ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص بعض ازواج مطہرات کے پاس آیا اور وہ ان کا چچا زاد بھائی تھا اور ان سے گفتگو کی رسول اکرم نے اس سے فرمایا کہ آج کے بعد اس جگہ پر مت کھڑے ہونا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ میرے چچا کی لڑکی ہے اللہ کی قسم میں نے ان سے کوئی نازیبا بات نہیں کی اور نہ انہوں نے مجھ سے کی۔ حضور نے ارشاد فرمایا یہ تو میں نے سمجھ لیا باقی اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں اور اس کے بعد مجھ سے زیادہ کوئی غیرت والا نہیں۔ چناچہ وہ شخص چلا گیا اور کہنے لگا کہ میرے چچا کی لڑکی سے مجھے بات کرنے سے منع کرتے ہیں میں آپ کے بعد ان سے شادی کرلوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ پھر اس شخص نے اس کلمہ کی توبہ میں ایک غلام آزاد کیا اور دس مجاہد فی سبیل اللہ اونٹ دیے اور پیدل حج کیا اور جبیر نے بواسطہ ضحاک حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ عبدا اللہ بن ابی منافق اور اس کے کچھ ساتھ دینے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جنہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ پر تہمت لگائی تھی جس پر رسول اکرم نے خطبہ دیا کہ کون شخص ہے جو میری ایسے شخص سے معذرت کرتا ہے جو مجھے تکلیف پہنچاتا ہے اور اپنے گھر پر بھی ایسے لوگوں کو جمع کرتا ہے جو مجھے تکلیف پہنچاتے ہیں۔ امام بخاری نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے فرماتی ہیں کہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد حضرت سودہ اپنی حاجت کے لیے نکلیں یہ فربہ جسم کی تھیں جو ان کو دیکھنا چاہتا تھا اس سے چھپ نہیں سکتی تھیں۔ حضرت عمر نے ان کو دیکھ لیا تو کہنے لگے اے سودہ اللہ کی قسم تم لوگوں سے چھپ نہیں سکتیں تو تم گھر سے کیوں نکلتی ہو یہ سنتے ہی حضرت سودہ فورا واپس ہوگئی اور رسول اکرم میرے حجرہ میں تھے شام کا کھانا تناول فرما رہے تھے اور آپ کے ہاتھ میں ہڈی تھی اتنے میں حضرت سودہ آئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی کسی حاجت کے لیے باہر نکلی تھی تو حضرت عمر نے مجھے ایسا ایسا کہا۔ حضرت عائشہ فرماتے ہیں اسی حالت میں آپ پر وحی آنا شروع ہوگئی اور ہڈی آپ کے ہاتھ میں تھی آپ نے اسے نیچے نہیں رکھا پھر وحی منقطع ہوئی تب آپ نے فرمایا کہ تمہیں اپنی ضروریات سے باہر نکلنے کی اجازت دے دی گئی۔ اور ابن سعد نے طبقات میں ابی بن مالک سے روایت کیا ہے کہ ازواج مطہرات رات کے وقت اپنی حاجت کے لیے باہر نکلا کرتی تھیں تو منافقین میں سے کچھ لوگ ان کے سامنے آجاتے جس سے ان کو تکلیف ہوا کرتی اس کی انہوں نے شکایت کی تو منافقین سے اس چیز کے بارے میں کہا گیا تو وہ کہنے لگے کہ ہم تو باندیوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ یعنی اے پیغمبر اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے الخ پھر ابن سعد نے حسن اور محمد بن کعب قرظی سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
Top