Fi-Zilal-al-Quran - Ash-Shu'araa : 227
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا١ؕ وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۠   ۧ
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے وَذَكَرُوا اللّٰهَ : اور اللہ کو یاد کیا كَثِيْرًا : بکثرت وَّانْتَصَرُوْا : اور انہوں نے بدلہ لیا مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم ہوا وَسَيَعْلَمُ : اور عنقریب جان لیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ظَلَمُوْٓا : ظلم کیا اَيَّ : کس مُنْقَلَبٍ : لوٹنے کی جگہ (کروٹ) يَّنْقَلِبُوْنَ : وہ الٹتے ہیں (انہیں لوٹ کر جانا ہے
والشعرآء ……مالایفعلون (802) یہ لوگ چونکہ خواہشات نفس اور اپنے مزاج کے پیچھے چلتے ہیں لہٰذا اکثر بہکے ہوئے لوگ شعراء کے پیچھے چلتے ہیں کیونکہ اکثربہکے ہوئے لوگ بھی ہوائے نفس کے بندے ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کا کوئی متعین نصب العین نہیں ہوتا۔ یہ ذہنی شعور اور تخیل کی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ تخیلات تصورات اور ادہام کی وادیاں بہت ہی وسیع ہوتی ہیں ، یہ اپنے تاثرات کے مطابق ان میں سے کسی وادی میں پھٹکتے رہتے ہیں جس وقت ان کا دل جس وادی سے متاثر ہوئے ، اس میں پھرنے لگتے ہیں۔ پھر یہ جو باتیں کرتے ہیں وہ غیر عملی ہوتی ہیں کیونکہ یہ ایسی دنیا میں زندہ ہوتے ہیں جو انہوں نے خود پیدا کی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ نحیفات کی دنیا ہوتی ہے اور ان کے شعور میں ہوتی ہے۔ اس دنیا کو یہ کرہ ارض پر عملی دنیا سے دور رکھتے ہیں کیونکہ عملی حقائق چونکہ تلخ ہوتے ہیں اس لئے وہ ان کو پسند نہیں ہوتے۔ اس لئے وہ بہت سی باتیں بناتے ہیں لیکن ایسا کرتے نہیں۔ کیونکہ ان کی دنیا عمل کی نہیں بلکہ وہم و گمان کی دنیا ہوتی ہے۔ اس نظر آنے الی دنیا میں ان کی دنیا کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا۔ اب اسلام کو دیکھو کہ وہ تو ایک عملی نظام زنگدی ہے اور اس کے ہر حکم کے لئے حکم یہ ہے کہ اسے عملاً قائم کیا جائے ۔ اسلام گویا ایک عظیم تحریک ہے جو ضمیر و وجدان کی دنیا میں بھی ہے۔ عقائد و تصورات کی دنیا میں بھی ہے اور پھر یہ تحریک عملی دنیا میں بھی ہے۔ لہٰذا اسلام کی دنیا شعراء کی دنیا سے بالکل مختلف ہے کیونکہ شاعر اپنے ذہن میں ایک سوچ کی تخلیق کرتا ہے اور اس میں گم ہوجاتا ہے جبکہ اسلام جو عقیدہ اپناتا ہے اسے عملی شکل دیتا ہے۔ گویا اسلام اعلیٰ تصورات کو عملی شکل دیتا ہے اور اعلیٰ تصورات کو عمل اور اخلاق میں ظاہر کرتا ہے۔ اسلام لوگوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ عملی حقائق سے فرار اختیار نہ کرو اور وہ موہوم خیالات کی طرف نہ بھاگو۔ اگر کوئی عملی حقیقت تمہیں پسند نہیں ہے تو اس سے بھاگ کر تخیلات کے قلعوں میں پناہ نہ لو۔ بلکہ اس پر حملہ آور ہو جائو اور حالات اور واقعات کو اپنی منشا کے مطابق بدل کر رکھ دو لیکن شاعر صاحب کا یہ کام نہیں ہوتا۔ اسلام انسانوں کی پوری قوت کو مجتمع کر کے اعلیٰ قدروں کو عملی دنیا تعمیر کرنے پر صرف کرتا ہے وہ اپنی کسی قوت کو بھی موہوم تخیلات کی دنیا میں رہ کر برباد نہیں کرتا۔ یہاں تک تو اسلام شعر و فن کو رد کرتا ہے اگر وہ عملی نہ ہوں۔ لیکن اسلام شعر و فن کا مطلقاً خلاف نہیں ہے۔ جو لوگ قرآن مجید کے ان الفاظ کو پڑھتے ہیں اور سرسری طور پر پڑھتے ہیں وہ شاید یہ سمجھیں کہ قرآن شعر و سخن کے مطلقاً خلاف ہے۔ دراصل قرآن کریم اس منہاج کے خلاف ہے جس پر ہمیشہ شعر اور فن چل نکلتا ہے یعنی ایسا تخیلاتی اور وہمی منہاج جس کے اندر عمل کی کوئی صورت نہ ہو۔ تخیل اور مبالغہ ہی ہو۔ ظاہر ہے کہ وہم و خیال کی دنیا تو پھر بہت ہی وسیع ہے ، انسان اس کے اندر غرق ہوجاتا ہے لیکن جب انسان کا شعور پختہ ہوجاتا ہے اور اس کے تاثرات شعر و فن پختہ ہوجاتے ہیں تو وہ شعوری اور تخیلاتی دنیا میں بھی کام کرتے ہیں اور عملی دنیا میں بھی کام کرتے ہیں۔ ایسے عملی تخیلات پھر اخلاقی لحاظ سے بھی پاک ہوتے ہیں۔ اور جب کوئی صاحب فن اسلامی رنگ میں رنگا جاتا ہے تو وہ محض ادہام و تخیلات کی دنیا میں قید نہیں ہوتا وہ عمل اور حکمت کی دنیا میں آتا ہے اور اس کے خیالات پھر بہت ہی قیمتی صاف اور روایتی شعرا سے مختلف ہوتے ہیں۔ جب کسی کی روح میں ایک مستقل منہاج رچ بس جاتا ہے۔ اس کا ایک اسلامی نصب العین قرار پاتا ہے۔ پھر وہ دنیا کو اسلام نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ اسلام کی روشنی میں دیکھتا ہے ۔ اسلام کے زاویہ سے دیکھتا ہے تو اس کا فن شعر سن بھی مختلفہو جاتا ہے ۔ ایسے معیار پر اسلام شعور و سخن اور فن کے خلاف نہیں رہتا جیسا کہ قرآن مجید کے ظاہری الفاظ سے نظر آتا ہے۔ قرآن کریم نے خود انسانی عقل ، سوچ اور خیال کو اس دنیا کے عجیب و غریب مظاہر اور حقائق کی طرف متوجہ کیا ہے۔ خود نفس انسانی کے اندر جو عجائبات ہیں ، جن میں انسانی تحمیات اور تمام نفسیاتی افعال شامل ہیں ، یہ غور کرنے کی دعوت دی ہے۔ شعر و سخن کا مواد تو انسان کے نفسیای افعال ہی سے بنتا ہے اور قرآن کے اندر جگہ جگہ اس کائنات کی عجیب تخلیق اور نفس انسانی کے عجیب افعال پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور قرآن نے یہ دعوت ایسے اسلوب میں دی ہے کہ آج تک کوئی شاعر اس کمال اور بنلدی تک نہیں پہنچ سکا۔ اپنی خوبصورتی اپنی فصاحت اور قدرت تصور کے اعتبار سے یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم سابقہ عمومی تبصرے کے اندر استثناء پیدا کرتا ہے ۔ کیونکہ قرآن مطلقاً شعر و سخن او فن کے خلاف نہیں ہے۔
الا الذین ……(721) ” بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ “ لہٰذا اہل ایمان ان لوگوں میں داخل نہیں ہیں۔ یہ لوگ ایمان لائے تو ان کے دل و دماغ اسلامی عقیدہ اور ایمان سے بھرگئے۔ ان کی زندگی ایک منہاج پر رواں دواں ہوگئی۔ انہوں نے اپنی عمی زندگی میں نیک عمل کرنا شروع کردیا اور ان کی قوتیں اعمال صالحہ اور خوبصورت بھلائی کی راہ پر صرف ہونے لگیں۔ وہ صرف ادہام و تخیلات کی دنیا سے باہر آگئے اور انہوں نے اپنے فن کو بھی اپنے نظریہ کے لئے استعمال کیا۔ یعنی کسی نے ان پر ظلم کیا تو انہوں نے بدلہ لے لیا۔ یعنی میں سچائی کو انہوں نے عملاً قبول کیا اس کی حمایت میں ان کا فن بھی میدان میں آگیا۔ ایسے ہی اہل فن میں ، معرکہ توحید شرک کے ابتدائی دور میں ، رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں حضرت حسان ابن ثابت ، کعب ابن مالک ، عبد اللہ ابن رواحہ ؓ شعراء انصار میں سے تھے اور عبد اللہ ابن الزیسری ابوسفیان ابن الحارث ابن عبدالمطلب تھے۔ یہ دونوں ایام جاہلیت میں حضور اکرم کی جو بھی کرتے تھے۔ جب مسلمان ہوئے اور خوب ہوئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی نعت میں بھی خوب کمالات دکھائے اور اسلام کی مدافعت کی۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان ابن ثابت کو حکم دیا ” ان کی ہجو کرو اور جبرئیل تمہارے ساتھ ہیں۔ “ عبدالرحمٰن ابن کعب نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے شعراء پر اشعار میں بھی نازل کیا ہے جو کچھ نازل کیا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” ایک مومن اپنی تولار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی جہاد کرتا ہے ، اس خدا کی قسم ، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جس چیز سے تم ان کو مارتے ہو وہ تیروں کی بارش ہے۔ “ (امام احمد) اسلامی شعر و فن کا تحقیق مختلف اسالیب میں ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ ایک صورت جو ابتدائے اسلام میں وجود میں آئی اور اس وقت اس کی ضرورت بھی تھی لیکن اسلام تصور حیات کے مطابق شعر و سخن کے اور دائرے بھی بیشمار ہیں جن کی اسلام اجازت دیتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اسلامی فن وہی ہوگا جو اسلام کے دفاع میں ہو۔ یا براہ راست اس میں دعوت اسلامی موجود ہو۔ یا جس میں اسلام کی تعریف ہو ، پیغمبر اسلام کی تعریف ہو یا اکابر اسلام کی تعریف و تمجید ہو۔ یا اللہ کی حمد و ثنا ؟ یہ ضروری نہیں ہے کہ شعر اگر ان موضوعات پر ہو تو اسلامی ہے اور اگر ان پر نہ ہو تو اسلامی نہیں ہے۔ گردش لیل و نہار پر ایک شاعرانہ نظر ، اور مناظر کائنات پر ایک ایسی نظر جس کے ذریعے ایک مسلم کا شعور اور اس کا تخیل قدرت الہیہ کا احساس کرتا ہو ، حقیقی اسلامی فن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک لمحہ جس میں انسان کے دل و دماغ پر اللہ کی حکمت روشن ہوجاتی ہے اور جس کے اندر انسان اس کائنات کے عجائبات کا احساس کرتا ہے۔ ایسے لمحات ہی میں اسلامی ادب کی تخلیق ہوتی ہے۔ اسلامی فن اور غیر اسلامی فن کے درمیان امتیاز اس سے ہوتا ہے کہ اسلام کا اپنا ایک تصور حیات ہے۔ اسلامی سوسائٹی کے اندر روابط کی ایک مخصوص شکل پائی جاتی ہے۔ اگر کوئی فن اسلامی تصورات ، اسلامی روابط کے اور اسلامی اخلاق کی اساس پر تخلیق ہوتا ہے تو وہ اسلامی ہے اور اسے اسلام پسند کرتا ہے ورنہ نہیں ہے۔ اور سورت کا خاتمہ اس دھمکی اور مجمل تہدید پر ہوتا ہے۔ وسیعلم الذین طلموآ ای منقلب ینقلبون (62 : 822) ” اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ “ اس پوری سورت کا مضمون یہ رہا اور اس میں مشرکین کے عناد اور ہٹ دھرمی کی تصویر کشی کی گئی۔ یہ بتایا گیا کہ وہ اللہ کی وعید کے مقابلے میں سرکشی کرتے رہے بلکہ الٹا عالم غرور میں عذاب کے جلدی نزول کا مطالبہ کرتے رہے۔ نیز اس سورت میں ایسے تمام لوگوں پر نازل ہونے والے عذابوں کی تصویر کشی بھی کی گئی اور مختلف رسولوں کے انجام دکھائے گئے۔ اس لئے سورت کے آخر میں مجملاً نبی ﷺ کی مخالف قوتوں کو بھی سمجھا دیا گیا کہ تم بھی ذرا اپنی خیر منائو کہ تمہارا انجام کیا ہونے والا ہے۔ گویا کفار مکہ ذہنی دنیا پر یہ آخری ضرب ہے اور ایسے الفاظ میں ہے کہ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست کے مطاق ہر شخص کا خیال اس کے معانی پہچان سکتا ہے۔ لہٰذا یہ مشرکین کے ایوان میں ایک زلزلہ ہے جو سورت کے آخر میں برپا کردیا گیا۔
Top