Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 227
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا١ؕ وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۠   ۧ
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے وَذَكَرُوا اللّٰهَ : اور اللہ کو یاد کیا كَثِيْرًا : بکثرت وَّانْتَصَرُوْا : اور انہوں نے بدلہ لیا مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم ہوا وَسَيَعْلَمُ : اور عنقریب جان لیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ظَلَمُوْٓا : ظلم کیا اَيَّ : کس مُنْقَلَبٍ : لوٹنے کی جگہ (کروٹ) يَّنْقَلِبُوْنَ : وہ الٹتے ہیں (انہیں لوٹ کر جانا ہے
مگر ہاں ! جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور انہوں نے اللہ کی یاد کثرت سے کی اور جب ان پر ظلم کیا گیا اس کے بعد انہوں نے بدلہ لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ ان کو کس جگہ لوٹ کر جانا ہے
شاعروں میں بھی سب ایک جیسے نہیں جہاں کثرت بدعملوں کی ہے وہاں نیک عمل بھی ہیں : 227۔ مشہور ومعروف ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں جہاں شاعروں کی اکثریت کا یہ حال ہے وہاں اپنے شاعر بھی موجود ہوتے ہیں جن میں یہ اوصاف جو اوپر بیان کئے گئے ہیں نہیں ہوتے یا بہت ہی کم ہوتے ہیں اس لئے جہاں شعر و شاعری کی اصلیت کو بیان کیا وہاں اس میں ان لوگوں کو مستثنی بھی کردیا جن میں ایمان وعمل کی زندگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے وہ بولتے بھی احتیاط کے ساتھ ہیں اور ہر وادی میں گم ہونے کے لئے بھی وہ تیار نہیں ہوتے اگر کوئی شعر کہتے ہیں یا ان کی طبع میں کوئی ایسا میلان موجود ہے تو وہ نہایت احتیاط سے کام لیتے ہوئے حقائق کو بیان کرتے ہیں کلمہ حق کی حمایت اور ذکر الہی کی رفعت وبلندی اور نعمت نبوی کو بیان کرتے ہیں تو وہ حدود سے تجاوز نہیں کرتے نہ تو انبیاء کا درجہ بڑھا کر خدائی تک لے جاتے ہیں اور نہ ہی اولیاء کرام اور بزرگوں کی تعریف میں یا وہ گوئی سے کام لیتے ہیں ہر ایک کیلئے جو مقام مقرر ہے اس سے تجاوز نہیں کرتے تاہم وہ کہیں کہیں انسانی کمزوری کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس کو نسیان یا خطا وسہو بھی قرار دیا جاسکتا تاہم وہ صرف گفتار کے غاز نہیں ہوتے بلکہ تقوی اور عمل صالح کی دولت سے بھی ان کو وافر حصہ ملا ہوتا ہے اور اگر شعر کہتے ہیں تو بھی اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی کثرت سے موجود ہوتا ہے ہاں ! اگر ان پر مخالفین ومعاندین کی طرف سے جو ظلم وستم پہنچا اس کا انہوں نے بدلہ دلی بھڑاس نکال کرلے لیا تو یہ انسانی فطرت ہے اور ایک حد تک اس کی اجازت بھی کیونکہ زیادتی کا بدلہ اتنی زیادتی سے تو بہرحال لیا جاسکتا ہے اور انہوں نے یہ کچھ کیا ہوگا جو کچھ کیا ہوگا تاہم کسی شاعر کو بھی نبوت و رسالت کے مقابلے میں کھڑا کرکے موازنہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ شاعری اور نبوت و رسالت میں کوئی قدر بھی مشترک نہیں۔ شاعر کو جب دیکھا جائے یا اس کی تعریف میں کوئی کلمہ کہا جائے تو وہ عام انسانوں کے زمرہ میں رکھ کر کہا جاسکتا ہے لیکن ان قومی شخصیتوں کے ساتھ ان کاموازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔ بلاشبہ قوم کے اندر بلند مرتبہ شاعروں کا ایک اپنا مقام ہے اور ان کے بلندی ومقام کا پتہ بھی اسی بات سے لگتا ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کو بدرگاہ رب ذوالجلال پیش کر کے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں اور وہ اپنے اصل مقام کو بھی نہیں بھولتے کہ وہ کیا ہے اور جہاں ان کو لوٹ کر جانا ہے اس بات کو بھی وہ مدنظر رکھتے ہیں اور جس مقام پر وہ کھڑے ہوتے ہیں اس کو بھی وہ کبھی نہیں بھولتے کہ ان کی لغزش لوگوں کو کہاں سے کہاں پہنچا سکتی ہے اس لئے وہ اکثر احتیاط ہی سے کام لیتے ہیں اور اب اسی مضمون پر ہم سورة الشعراء کے مضمون کو ختم کر رہے ہیں ۔ عبدالکریم اثری : ٹھٹہ عالیہ 31۔ اپرایل 1997 ء : بعد نماز عصر ۔
Top