Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 227
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا١ؕ وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۠   ۧ
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے وَذَكَرُوا اللّٰهَ : اور اللہ کو یاد کیا كَثِيْرًا : بکثرت وَّانْتَصَرُوْا : اور انہوں نے بدلہ لیا مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم ہوا وَسَيَعْلَمُ : اور عنقریب جان لیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ظَلَمُوْٓا : ظلم کیا اَيَّ : کس مُنْقَلَبٍ : لوٹنے کی جگہ (کروٹ) يَّنْقَلِبُوْنَ : وہ الٹتے ہیں (انہیں لوٹ کر جانا ہے
بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے جنھوں نے نیک اعمال کیے اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا، اور انھوں نے بدلہ لیا اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور عنقریب جان لیں گے جنھوں نے ظلم و ستم کیے کہ ان کا ٹھکانا کیا ہوتا ہے
اِلاَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّانْتَصَرُوْا مِنْ م بَعْدِمَاظُلِمُوْا ط وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ ۔ (بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے جنھوں نے نیک اعمال کیے اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا، اور انھوں نے بدلہ لیا اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور عنقریب جان لیں گے جنھوں نے ظلم و ستم کیے کہ ان کا ٹھکانا کیا ہوتا ہے۔ ) شانِ نزول شعراء پر تنقیدی آیات کے نزول کے بعد حضرت حسان ابن ثابت ( رض) ، عبداللہ بن رواحہ ( رض) ، کعب بن مالک ( رض) اور کعب بن زہیر ( رض) روتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، یارسول اللہ ! شاعروں کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل کی ہیں، ہم بھی تو شاعر ہیں، ہم تو ہلاک ہوگئے، ہماری نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے پیش نظر آیت کریمہ نازل فرمائی۔ اس میں ان شعراء کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو چار خصوصیات کے حامل ہیں۔ چار خصوصیات کے حامل شعراء کا استثناء جن میں پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ مومن ہوں۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کی کتابوں کو سچے دل سے مانتے ہوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کی شاعری کا ایک ہدف متعین ہوجائے گا۔ خیالات کی ہر لہر کے ساتھ شعر گوئی کی قوت حرکت میں نہیں آئے گی بلکہ ان کا ہر شعر کلمہ حق کی حمایت اور ذکرالٰہی کی سربلندی میں کام آئے گا۔ وہ دل و دماغ اور اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ اور امانت سمجھیں گے۔ انھیں اس بات کا یقین ہوگا کہ میری زبان سے جو شعر نکلے گا وہ قیامت کے دن میزان کا تول بنے گا اور مجھے اس کا جواب دینا ہوگا۔ اور پھر میرے شعر کی تأثیر سے جو اثرات مرتب ہوں گے مجھے اس کی ذمہ داری کو بھی قبول کرنا پڑے گا۔ دوسری خصوصیت ان کی یہ ہے کہ وہ ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح کی دولت سے بھی مالامال ہوں گے۔ وہ ایمان لاکر چونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی غیرمشروط اطاعت کا عہد کرچکے ہیں، اس لیے ان کی پوری زندگی تقویٰ اور عمل صالح سے عبارت ہوگی۔ وہ فسق و فجور کا نہ ارتکاب کریں گے اور نہ ان کے اشعار فسق کی تبلیغ سے آلودہ ہوں گے۔ وہ ان تمام اخلاقی بندشوں کو اپنے اخلاق کی زنجیر بنادیں گے جنھیں شریعت نے ان پر لازم کیا ہے۔ اور انھیں مکارمِ اخلاق کو وہ اپنے شعر کی قوت سے لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنے کی کوشش کریں گے۔ تیسری خصوصیت ان کی یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو یاد کریں گے۔ اپنے عام حالات اور اوقات میں بھی اور اپنے کلام میں بھی۔ ان کی زندگی ایک ہی رنگ میں رنگی ہوئی اور ایک ہی طرزعمل سے عبارت ہوگی۔ ان کی شاعری میں انھیں چیزوں کا اظہار ہوگا جو اسلامی تعلیمات نے ان کے حوالے کی ہیں اور ان کی زندگی میں وہی چیزیں چلتی پھرتی دکھائی دیں گی جن کا وہ اپنی شاعری میں اظہار کریں گے۔ ان کی زندگی میں ثنویت نہیں ہوگی کہ شخصی زندگی تو زہدوتقویٰ سے آراستہ ہو لیکن کلام سراسر رند و ہوسنا کی سے لبریز ہو۔ جیسے ہمارے یہاں بعض ایسے محترم شاعر گزرے ہیں جنھوں نے شراب خانہ خراب کو کبھی منہ نہیں لگایا، لیکن ان کی شاعری میں شراب کا استعمال اس کثرت سے ہوا ہے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے بڑا بادہ خوار کوئی نہیں ہوگا۔ اور ان کی زندگی کا یہ رنگ بھی نہیں ہوگا کہ وہ شعر میں بڑی حکمت و معرفت کی باتیں کریں اور ایسا لگے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کا ان سے بڑھ کر مبلغ کوئی نہیں، مگر ان کی ذاتی زندگی کو دیکھیے تو اس میں یاد خدا کے آثار تک نظر نہ آئیں۔ اسلام جس طرح اپنے ماننے والوں کو متعین اہداف دیتا ہے، اسی طرح انھیں اسی منزل کا مسافر بھی بناتا ہے، ان کی تمام زندگی کا سفر اسلام ہی کی منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔ نہ کبھی منزل بدلتی ہے اور نہ کبھی سفر کی جہت تبدیل ہوتی ہے۔ یہ یکسانی اور یکرنگی ان شاعروں کی خصوصیت ہے جن کا یہاں ذکر فرمایا جارہا ہے۔ چوتھی خصوصیت ان شعراء کی یہ ہے کہ چونکہ ان کے جذبات و احساسات بھی اسلام کا رنگ اختیار کرچکے ہیں، ان کو اسی بات پر غصہ آتا ہے جو اسلام کی نگاہ میں بری ہے اور اسی بات پر خوشی ہوتی ہے جو اسلام کی نگاہ میں اچھی ہے۔ ان کا دادودہش اسلام کے حوالے سے ہوتا ہے اور ان کا انتقام اور انتصار بھی اسلام ہی کے حوالے سے متشکل ہوتا ہے۔ وہ اگر کسی کی تعریف کرتے ہیں تو اسلام کی خاطر اور کسی کی ہجو کہتے ہیں تو اسلام کی خاطر۔ چناچہ اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام ( رض) جو تمام ذاتی، نسلی اور قومی عصبیتوں سے ہاتھ اٹھا چکے تھے، اب ان کا بالکل یہ حال ہوگیا تھا جس کی تصویر حالی نے کھینچی ہے : بھڑکتی نہ تھی خود بخود آگ ان کی شریعت کے قبضے میں تھی باگ ان کی جہاں کردیا نرم، نرما گئے وہ جہاں کردیا گرم، گرما گئے وہ مسلمان شعراء کا یہ عالم ہوگیا تھا کہ وہ اپنی تمام تر طلاقتِ لسانی اور شعری مہارت کے باوجود اپنی اس صلاحیت کو کبھی شخصی اغراض کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔ البتہ جب ان پر کوئی ظلم کرتا تھا یا نسلی یا قومی عصبیتوں کی آگ بھڑکاتا یا آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا یا اسلامی تعلیمات کو ہجو وطعن کا نشانہ بناتا تھا۔ تو پھر اسلام کے حق میں اور باطل سے انتقام لینے کے لیے ان کی زبانیں حرکت میں آتی تھیں اور وہ اپنی زبانوں سے وہی کام لیتے تھے جو ایک مجاہد تیر و نشتر سے کام لیتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ شعرائِ کفر جب اسلام اور نبی کریم ﷺ کیخلاف الزامات کے طوفان اٹھاتے اور نفرت و عداوت کی آگ بھڑکاتے تھے تو اس کا جواب دینے کے لیے آنحضرت ﷺ شعرائِ اسلام کی ہمت افزائی فرماتے تھے۔ چناچہ آپ ﷺ نے ایک موقع پر حضرت کعب بن مالک ( رض) سے فرمایا اہجھم فوالذی نفسی بیدہ لھم اشدعلیھم من النبل ” ان کی ہجو کہو کیونکہ اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تمہارا ہر شعر ان کے حق میں تیر سے زیادہ تیز ہے۔ “ حضرت حسان ابن ثابت ( رض) کے لیے مسجد نبوی میں منبر رکھا جاتا تھا اور وہ کافر شعراء کا جواب دیتے تھے۔ اور آ نحضرت ﷺ انھیں دعائوں سے نوازتے تھے۔ ابوسفیان اسلام لانے سے پہلے آنحضرت ﷺ کی ہجو کہا کرتے تھے۔ ایک دن ان کی ہر زہ سرائی کے جواب میں حضرت حسان ( رض) نے جو اشعار کہے ان میں سے چند حسب ذیل ہیں۔ ہَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَاَجَبْتُ عَنْہٗ وَاِنَّ اَبِیْ وَوَالِدَتِیْ وَعِرْضِیْ اَتَشْتِمُہٗ وَلَسْتَ لَہٗ بِکُف ٍٔ لِسَانِیْ صَارِمٌ لاَعَیْبَ فِیْہِ وَعِنْدَاللّٰہِ فِیْ ذَاکَ الْجَزَائٗ لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَائٗ فَشَرُّکُمَا لِخَیْرِکُمَا الْفِدَائٗ وَبَحْرِیْ لاَ تُکَدِّرُہُ الْدِّلاَ ئٗ ” اے ابوسفیان تو نے میرے محبوب ﷺ کی جناب میں نازیبا باتیں کیں اور میں اس ہجو کا تمہیں جواب دے رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں مجھے اس کی جزاء خیر ملے گی۔ “ ” سنو ! تمہاری بدزبانی سے حضور ﷺ کی عزت کو بچانے کے لیے میرا باپ، میری ماں اور میری عزت بطور سپر کام دیں گے یعنی میں اپنے باپ، اپنی ماں اور اپنی عزت تک کو حضور ﷺ کی عزت پر قربان کردوں گا۔ “ ” تو اس کی جناب میں نازیبا بات کہتا ہے جس کا تو ہم پایہ نہیں ہے۔ تم دونوں میں سے جو برا ہے وہ اس پر فدا ہو جو تم میں سے اچھا ہے۔ “ ” میری زبان تیز تلوار ہے اس میں کوئی نقص نہیں ہے اور میرا بحر فصاحت اتنا گہرا ہے کہ ڈول نکالنے سے وہ مکدر نہیں ہوتا۔ “ آیت کے آخری حصہ میں ظالموں کے انجام کی خبر دی گئی ہے اور یہاں ظالم سے مراد وہ لوگ ہیں جو حق کو نیچا دکھانے کے لیے سراسر زیادتی سے کام لیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ پر کبھی شاعر ہونے کا الزام لگاتے تھے اور کبھی کاہن ہونے کا۔ تاکہ لوگ آپ کی نبوت کے بارے میں یکسو نہ ہوسکیں۔ اور اسلام کو آگے بڑھنے کا موقع نہ ملے۔ انھیں وارننگ دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ وہ عنقریب جان لیں گے کہ ان کا ٹھکانہ کیا ہوتا ہے۔ اور وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔
Top