Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 227
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا١ؕ وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۠   ۧ
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے وَذَكَرُوا اللّٰهَ : اور اللہ کو یاد کیا كَثِيْرًا : بکثرت وَّانْتَصَرُوْا : اور انہوں نے بدلہ لیا مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم ہوا وَسَيَعْلَمُ : اور عنقریب جان لیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ظَلَمُوْٓا : ظلم کیا اَيَّ : کس مُنْقَلَبٍ : لوٹنے کی جگہ (کروٹ) يَّنْقَلِبُوْنَ : وہ الٹتے ہیں (انہیں لوٹ کر جانا ہے
بجز ان کے جو ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال ہوں اور وہ کام بھی نیک کریں اور وہ یاد کریں اللہ کو بہت اور وہ بدلہ لیں اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا جائے کہ ان کا معاملہ دوسرا ہے اور عنقریب خود ہی جان لیں گے وہ لوگ جو ظلم کرتے رہے کہ کس انجام سے دوچار ہونا ہے ان کو۔1
122 ایماندار اور سچے شاعروں کا استثناء : سو بیکار و بدکار شاعروں سے سچے اور ایماندار شاعروں کا استثناء کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا " مگر جو ایمان اور عمل صالح کی دولت سے سرفراز ہوتے ہیں اور وہ اللہ کو بہت یاد کرتے ہیں "۔ اللہ پاک کو یاد کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کا ذکر کیا کریں اور یہ بھی کہ اپنے شعر و کلام سے بھی اس کی تعریف کریں۔ اور اس کی عظمت کو بیان کریں۔ اور اس کی عظمت شان اور ذات وصفات کا ایسا استحضار ہو کہ انسان ہمیشہ اسی کا ہو کر رہ جائے۔ اللّھُمَّ ارْزُقْنَا التَّوْفِیْقَ لِذَالِک وَالسِّدَادَ وَالثَّبَاتَ عَلَیْہِ وَخُذُ بِنَواصِیْنَا اِلٰی مَا فِیْہِ حُبک وَرِضَاک فِیْ کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ الْمَوَاطِنِ وَبِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الْاَحْوَال ۔ یَا مَنْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شیئٍ وَّھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ ۔ جیسا کہ دربار رسالت کے شعرائے کرام تھے کہ وہ دولت ایمان سے سرشار و سرفراز تھے۔ اس بناء پر ان کی شاعری عام شاعرانہ لغویات سے پاک اور ایک بامقصد شاعری تھی۔ اور ان کا ہر شعر حق کی حمایت اور اس کے دفاع میں ہوتا تھا۔ وہ صرف گفتار کے غازی نہیں تھے بلکہ عمل و کردار کے بھی دھنی اور غازی تھے۔ اور وہ تقویٰ کی دولت سے مالا مال تھے۔ اور اس کے بعد اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں جو مختلف شعرائے کرام پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی درد و سوز بھری سچی شاعری کے ذریعے اسلام کی مقدس اور پاکیزہ تعلیمات کو پھیلانے، عام کرنے اور ان کو لوگوں کے دلوں میں اتارنے کے لیے عظیم الشان اور بڑا مفید و موثر کردار ادا کیا۔ اور انہوں نے اپنے آفاقی شاعری کے ذریعے ایک دنیا کے دلوں کو گرمایا اور ان کو حیات تازہ بخشی۔ سو مذموم شاعری وہ ہے جو ایمان و یقین کے نور سے محروم اور محض اوہام و تخیلات پر مبنی ہو ۔ والعیاذ باللہ ۔ 123 ظلم کے بعد بدلہ لینے کی اجازت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " وہ بدلہ لیتے ہیں اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا ہوتا ہے "۔ یعنی اسلامی تعلیمات کے مطابق ظلم کا بدلہ لینا جائز ہے۔ اسلام مسیحیت محرفہ کی طرح یہ نہیں سکھاتا کہ کوئی اگر ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم دوسرا بھی اس کے آگے رکھ دو ۔ سو اسلام میں ایسے نہیں بلکہ اس میں بدلہ لینے کی جبکہ وہ جائز حدود کے اندر ہو اجازت ہے۔ بلکہ اگر معاملہ ذاتی اور شخصی نوعیت سے بڑھ کر حرمات دین کے انتہاک کا ہو تو اس وقت بدلہ لینا واجب ہوجاتا ہے۔ اور حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ مومن اپنی جان سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی تلوار و زبان سے بھی۔ اور خود آنحضرت ﷺ شاعر اسلام حضرت حسان بن ثابت ۔ ؓ ۔ کو مسجد نبوی کے منبر پر بٹھا کر فرمایا کرتے تھے ۔ اُھْجُہُمْ وَجِبْرِیْلُ مَعَکَ ۔ یعنی تم ان کفار کی ہجو اور مذمت کرو جو اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف شعر کہتے اور یا وہ گوئی کرتے ہیں اور جبریل امین تمہارے ساتھ ہیں۔ نیز فرماتے " قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ تمہارے یہ اشعار تیروں سے بھی بڑھ کر ان کو ضرب لگاتے ہیں " ۔ اَشَدُّ عَلَیْھِمْ مِنْ رَشُقِ النَّبْلِ " ۔ مگر نبی رحمت (علیہ الصلوۃ والسلام) کا عدل و انصاف ملاحظہ ہو کہ آپ شعرائے اسلام کو انتصار اور بدلہ لینے کی اس اجازت کے ساتھ ساتھ یہ تعلیم و تلقین بھی فرماتے تھے کہ تم اپنے شعروں میں حق و انصاف کے خلاف کوئی بات نہیں کہنا۔ اور مخالفین کے ماں باپ کا ذکر نہ کرنا۔ (تفسیر المراغی وغیرہ) ۔ سو مظلوم کو اپنی مظلومیت کیخلاف آواز اٹھانے اور ظالم سے ظلم کا بدلہ لینے کی اجازت ہے۔ بشرطیکہ وہ حدود کے اندر ہو۔ 124 ظالموں کے لیے تنبیہ و تذکیر : سو ارشاد فرمایا گیا " ظالموں کو عنقریب خود معلوم ہوجائے گا کہ ان کو کیا بھگتان بھگتنا ہے " ۔ والعیاذ باللہ : { ظلموا } کے ضمن میں ظالموں کا جو اجمالی ذکر آگیا اس پر اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ عنقریب ان کو خود معلوم ہوجائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اور انہیں کس انجام سے دو چار ہونا ہے۔ مگر وقت گزرنے کے بعد اس جاننے کا انکو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہوگا۔ اور ظلم کی سب سے بڑی شکل کفر و شرک ہے۔ اور اس کے بعد ہر گناہ و نافرمانی بھی اسی کے ذیل میں آتی ہے۔ مگر اپنے اپنے درجات کے مطابق ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہر ظلم اور ظلم کی ہر شکل سے ہمیشہ کے لئے محفوظ رکھے ۔ آمین یا رب العالمین۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ظالموں کو عنقریب خود ہی معلوم ہوجائے گا کہ جس ظلم کا ارتکاب انہوں نے کیا تھا اس کا کیا بھگتان انکو بھگتنا پڑے گا ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس ارشاد میں ظالموں کے لیے بڑی تنبیہ و تذکیر ہے تاکہ وہ بچ جائیں اپنی بری روش اور برے انجام سے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top