Tafseer-e-Jalalain - Al-Fath : 5
لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ یُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًاۙ
لِّيُدْخِلَ : تاکہ وہ داخل کرے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتِ : اور مومن عورتوں جَنّٰتٍ : جنت تَجْرِيْ : جاری ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : ان میں وَيُكَفِّرَ : اور دور کردے گا عَنْهُمْ : ان سے سَيِّاٰتِهِمْ ۭ : ان کی بُرائیاں وَكَانَ ذٰلِكَ : اور ہے یہ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک فَوْزًا : کامیابی عَظِيْمًا : بڑی
یہ اس لئے کہ وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بہشتوں میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ان سے انکے گناہوں کو دور کر دے اور یہ خدا کے نزدیک بڑی کامیابی ہے
لیدخل المئومذین والمومنات (الآیۃ) مروی ہے کہ جب مسلمانوں نے سورة فتح کا ابتدائی حصہ لیغفرلک اللہ سنا تو صحابہ کرام نے آپ ﷺ کو مغفرت پر مبارکباد دی اور عرض کیا ہمارے لئے کیا ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔ الظانین باللہ ظن السوء علیھم دائرۃ السوء یعنی اللہ کو اس کے حکموں کے بارے میں متہم کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے بارے میں گمان رکھتے ہیں کہ یہ مغلوب یا مقتول ہوجائیں گے اور دین اسلام کا خاتمہ ہوجائے گا (ابن کثیر) اور جس گردش یا ہلاکت کے مسلمانوں کے لئے منتظر ہیں وہ تو ان ہی کا مقدر بننے والی ہے۔ فائدہ : ان الذین یبایعونک (الآیہ) جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں اور اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے، بیعت بالفتح عہد کرنا، بیعت کے عنان اور طریقے آپ سے مختلف منقول ہیں، کبھی آپ نے کسی خاص امر پر بیعت لی، جیسا کہ جریر سے عہد لیا، والنصح لکم مسلم ہر مسلمان کی خیر خواہی کرو، اور بعض عورتوں سے نوحہ نہ کرنے پر عہد لیا اور کبھی ترک سوال پر اور کبھی اطاعت وانقیاد پر، اور کبھی جہاد و قتال پر۔ سوال : یہ وعدہ انعام اصحاب بیعت رضوان کے ساتھ خاص ہے یا عام ہے۔ جواب :۔ جن کے حق میں آیت نازل ہوئی ہے وہ اول اور بالذات مصداق ہیں اور دوسرے جو اسے اختیار کریں مصداق ثانی اور بالتبع ہیں، اصحاب بیعت رضوان یقینا اس دولت کو پا گئے مگر دوسروں کے بارے میں یقین و تعیین نہیں، اس لئے کہ اعتبار عموم سبب کا ہے نہ کہ خصوص مورد کا۔ شبہ : اگلی آیت میں اذیبایعونک تحت الشجرۃ اس میں لفظ تحت الشجرۃ کی قید ہے، لہٰذا عموم باقی نہ رہا۔ جواب : تحت الشجرۃ کی قید کو رضا و قبول میں مطلقا دخل نہیں ہے، صرف ایک واقعہ کا بیان ہے، اگر اس درخت کی کوئی فضیلت ہوتی تو تمام بیعتیں اسی درخت کے نیچے ہوا کرتیں اور حضرت عمر اس کو نہ کٹواتے۔ فائدہ :۔ خلفاء اسلام اور اولیاء کرام کی بیعت کا اسی بیعت پر قیاس ہے مگر بیعت خلافت تو مسنون و متوارث ہے اور صوفیہ کی بیعت متضمن ہے بیعت خلافت کو (خلاصۃ التفاسیر) تفصیل کے لئے خلاصتہ کی طرف رجوع کریں۔ مسئلہ :۔ بیعت سنت ہے نہ کہ واجب، نہ بدعت، ایسا ہی فرمایا ہے شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ تعالیٰ نے قول الجمیل میں۔ مسئلہ :۔ بیعت ایک عہد ہے جو زبان اور کتابت سے تام ہوجاتی ہے مگر مصافحہ مسنون ہے۔ مسئلہ :۔ عورتوں سے بیعت بذریعہ مصافحہ جائز نہیں ہے، حضرت عائشہ کی روایت بخاری میں موجود ہے فرماتی ہیں کہ آپ نے عورتوں سے زبانی بیعت لی، کبھی آپ نے عورت کا ہاتھ نہیں چھوا۔ مسئلہ : مریدہ اگر صغیرہ ہو یا محارم میں سے ہو تب بھی ترک مصافحہ اولیٰ ہے۔ مسئلہ :۔ عورتوں سے بیعت کرنا منقول نہیں مگر بچند وجوہ جائز ہے (تفصیل کے لئے خلاصتہ التفاسیر کی طرف رجوع کریں۔ )
Top