Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
بیشک جو لوگ کافر ہوچکے برابر ہے ان کو10 تو ڈرائے یا نہ ڈرائے وہ ایمان نہ لائیں گے
10 ۔ اس آیت میں كَفَرُوْاسے مراد مطلق کافر مراد نہیں ہیں کیونکہ نبی کریم (علیہ السلام) کی تبلیغ پر ہزاروں کافر ایمان لائے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے بلکہ اس سے مراد خاص قسم کے کافر ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو حق کو اچھی طرح سمجھ چکے اور پہچان چکے ہوں مگر محض ضد اور عناد کی وجہ سے اس کا انکار کرتے ہوں۔ ضد و انکار کی وجہ سے ان کے ضمیر مردہ اور دل سیاہ ہوچکے ہیں اس لیے وعظ ونصیحت اور تبلیغ وانذار کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا۔ ای ستروا الحق عناداً (مدارک) مشرکین مکہ میں ابو جہل، ابولھب، ولید بن مغیرہ وغیرہ اور یہود کے بعض علماء اور رؤسا مثلا حی بن اخطب، کعب بن اشرف وغیرہ اسی قسم کے کافر تھے۔ (ابو السعود ص 283 ج 1، قرطبی ص 184 ج 1 نیشا پوری ص 140 ج 1) جیسا کہ فرعون اور اس کی قوم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا یہی حال مشرکین مکہ کا تھا۔ اور احبارِ یہود کے متعلق ارشاد ہے۔ فَلَمَّا جَاۗءَھُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ ( سورة بقرہ ع 11) اور ءَاَنْذَرْتَھُمْ میں ہمزہ استفہام کے لیے نہیں ہے بلکھ تسویہ کے لیے ہے کیونکہ جو ہمزہ سواء، مادری، ما ابالی، لیت شعری وغیرہ کے بعد آئے وہ تسویہ کیلئے ہوتا ہے۔ اور علامت اس کی یہ ہے کہ مصدر اس کے مدخول کے قائم مقام ہوسکے (مغنی ابن ہشام ص 16 ج 1) اور رضی شرح کافیہ (ص 328 ج 2) میں ہے ان الہمزۃ تستعمل مطرداً مع ام التسویۃ اور اَمْ اس آیت میں احد الامرین کے لیے نہیں بلکہ یہ امْ متصلہ ہے اور تسویہ کیلئے (رضی شرح کافیہ ص 314 ج 2، مغنی ص 39 ج 1) " ترکیب نحوی "۔ الذین کفروا موصول مع الصلۃ اسم ان، سواء علیہمء انذرتھم ام لم تنذرھم بتاویل المصدر، مبتداء موخر اور یہ جملہ خبر ان ہے (تفسیر مظہری ص 23 ج 1، رضی ص 317 ج 2) لَا يُؤْمِنُوْنَ جملہ مفسرہ ہے جو ماقبل کی تفسیر کرتا ہے جملۃ مفسرۃ لاجمال ما قبلھا فیما فیہ الاستواء (تفسیر مظہری ص 23 ج 1، روح المعانی ص 129 ج 1) یعنی ان کافروں کے حق میں آپ کے انذار اور عدم انذار کے یکساں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا اور وہ ایمان نہیں لائیں گے یا لَا يُؤْمِنُوْنَ جملہ اِنَّ کی خبر ہے۔ اور سواء علیہم الخ درمیان میں جملہ معترضہ ہے۔ وخبر ان والجملۃ قبلھا اعتراض (روح المعانی ص 130 ج 1، تفسیر مظہری ص 23 ج 1، مدارک ص 13 ج 1) آیت کا مفہوم دونوں صورتوں ایک ہی ہے۔
Top