Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 4
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ
وَالَّذِينَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان رکھتے ہیں بِمَا : اس پر جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا إِلَيْکَ : آپ کی طرف وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِکَ : آپ سے پہلے وَبِالْآخِرَةِ : اور آخرت پر هُمْ يُوقِنُونَ : وہ یقین رکھتے ہیں
اور وہ لوگ جو ایمان لائے اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا تیری طرف اور اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا تجھ سے پہلے7 اور آخرت کو وہ یقینی جانتے ھین8
7 ۔ یہ متقین کی چوتھی صفت ہے۔ اس آیت میں دو چیزوں کا ذکر ہے۔ ایک وہ وحی جو حضرت رسول اکرم ﷺ پر نازل ہوئی۔ دوسری وہ وحی جو پہلے پیغمبروں پر اتری۔ پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی کتابوں پر ایمان لانے سے مراد صرف یہ ہے کہ انہیں اللہ کی طرف سے مانا جائے اور انہیں سچا سمجھا جائے ان پر عمل کرنا واجب نہیں۔ اور آنحضرت ﷺ کی وحی پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے حق اور من عنداللہ ماننے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کیا جائے اور اپنی زندگی اس کی ہدایت کے مطابق بسر کی جائے۔ آپ کی وحی صرف قرآن مجید ہی میں منحصر نہیں بلکہ آپ کے تمام دینی ارشادات جو کتب احادیث میں موجود ہیں یہ سب وحی تھے تو جس طرح قرآن پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح قرآن کے علاوہ دوسری وحی کو ماننا بھی فرض ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم (علیہ الصلوۃ والسلام) کے بعد وحی منقطع ہوچکی ہے اگر جاری ہوتی تو یہاں اس پر بھی ایمان لانے کا ذکر ضرور ہوتا۔ اس آیت میں جس ایمان کا ذکر ہے وہ حقیقت میں ایمان بالغیب ہی کا ایک شعبہ ہے۔ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْب ِکے الفاظ پورے عالم غیب پر حاوی تھے۔ مگر اس آیت میں عالم غیب کی صرف دو چیزوں کا خصوصیت سے ذکر کیا گیا ہے یعنی گذشتہ وحی اور موجودہ وحی پر ایمان لانا۔ تو اس تخصیص بعد التعمیم سے یہود ونصاریٰ میں سے جو لوگ ایمان لا چکے تھے ان کی عزت افزائی اور ان کی فضیلت کا اظہار مقصود ہے (روح المعانی ص 120 ج 1، تفسیر کبیر ص 254 ج 1، تفسیر مظہری ص 21 ج 1) 8 ۔ یہ متقین کی پانچویں صفت ہے۔ یہاں آخرت سے مراد دار آخرت یعنی قیامت ہے نہ کہ نبوت جیسا کہ منکرین ختم نبوت کا خیال ہے۔ چناچہ دوسری آیت میں ارشاد ہے۔ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ ۔ (عنکبوت رکوع 7) ۔ قیامت پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ حشر ونشر، حساب وکتاب، جنت و دوزخ اور یوم قیامت کو جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب کچھ مانتے اور اس کے وقوع پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں تک تو دعوت توحید کو قبول کرنے والوں اور کتاب ہدایت سے منتفع ہونے والوں کی صفات و علامات کا ذکر تھا۔ اب آگے ان صفات کا ثمرہ اور ان کے حاملین کی جزا کا بیان ہے
Top