Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 139
وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
وَلَا تَهِنُوْا : اور سست نہ پڑو وَلَا تَحْزَنُوْا : اور غم نہ کھاؤ وَاَنْتُمُ : اور تم الْاَعْلَوْنَ : غالب اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور تم کو ہمت نہ بنو اور غمگین نہ ہو حالانکہ تم ہی غالب رہو گے بشرطیکہ تم کامل مومن ہو ۔2
2 یہ مضمون مذکور عام لوگوں کے لئے ایک کافی بیان ہے اور ہدایت و نصیحت کا موجب ہے ان لوگوں کے لئے خدا سے جو ڈرنے والے ہیں اور تم جو اس وقت مغلوب ہوگئے ہو اس سے ہمت نہ ہارو اور جو لوگ شہید ہوگئے ہیں ان پر غمگین نہ ہو حالانکہ انجام کار تم ہی غالب رہو گے بشرطیکہ پورے پورے مومن رہے اور تمہارا ایمان صحیح رہا۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے کہ جائو اور جا کر کار کا انجام دیکھ لو یہ بیان عبرت حاصل کرنے کو لوگوں کے لئے کافی ہے اور ہدایت و بصیرت ہے اور موعظت اور نصیحت ہے ان لوگوں کے لئے جو خدا سے ڈرنے والے ہیں اس میں متقیوں کی دونوں قسمیں آگئیں گویا عوام کی عبرت کے لئے کافی بیان ہے اور بصیرت حاصل کرنے کی بات ان کے لئے جو تقویٰ کے اونچے درجہ پر فائز ہیں اور حق و باطل کو سمجھتے ہیں اور نصیحت مسلمانوں کے لئے جو اس کے موافق عمل کریں اور کفار کے اس عارضی غلبے سے ہمتیں پست نہ کرو اور مرنے والوں پر رنج نہ کرو حالانکہ تم ہر اعتبار سے غالب ہو اجنام کے اعتبار سے بھی اور اس امید کے اعتبار سے بھی جو تم کو اللہ تعالیٰ سے ہے وہ ان کو نہیں ہے۔ تمہارے مرنے والے جنت میں اور ان کے مرنے والے جہنم میں پھر دنیا کی جسمانی تکلیف میں دونوں برابر ان تکونوا تالمون فانھم یالمون کما تالمون و ترجون من اللہ مالا یرجعون یا تو اس آیت کا نزول اس وقت ہوا ہو جب نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جائو ان کافروں کا تعاقب کرو اور یہ تعاقب مسلمانوں کو شاق گزرا ہو اور ہوسکتا ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی ہو جب خالد بن ولدی جو اس وقت تک کافر تھے ایک جماعت مشرکین کی لے کر آئے تھے اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا اللھم لایغلبن علینا اللھم لاقوۃ لنا الا بک یا اللہ ان کو ہم پر غلبہ اور برتری نہ دیجی۔ یا اللہ ! ہم کو سوائے تیرے اور کوئی قوت نہیں ہے۔ چناچہ اس دعا کے بعد مشرکین کو ہزیمت ہوئی اور یہ جو فرمایا ان کنتم مئومنین اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ایمان کا مقتضا ہے اس پر تم ثابت رہے۔ ایمان کا مقتضایہ ہے کہ ثواب کی امید رکھو اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے کی وجہ سے قلب قوی رہے یا یہ مطلب ہے کہ اگر تمہارا ایمان صحیح رہاتو انجام کار تم کو ہی غلبہ ہوگا اس کا مطلب بھی وہی ہے کہ استقلال اور تقوے کے پابند رہے ہم نے تیسیر میں دونوں باتوں کا لحاظ رکھا ہے اب آگے پھر اسی تقویت اور تسلی کو دوسرے انداز سے بیان فرمایا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top