Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 139
وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
وَلَا تَهِنُوْا : اور سست نہ پڑو وَلَا تَحْزَنُوْا : اور غم نہ کھاؤ وَاَنْتُمُ : اور تم الْاَعْلَوْنَ : غالب اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور (دیکھو) بےدل نہ ہونا اور نہ کسی طرح غم کرنا اگر تم مومن (صادق) ہو تو تم ہی غالب رہو گے
آیت نمبر : 139۔ غزوہ احد میں مومنین کو اپنے شہداء اور زخمی ہونے والے افراد کے سبب جو تکلیف اور غم لاحق ہوا اس آیت میں اس پر انہیں حوصلہ اور تسلی دلائی جا رہی ہے، اور اس میں انہیں اپنے دشمن کے خلاف جہاد پر ابھارا جارہا ہے اور انہیں عجز اور بزدلی دکھانے سے منع کیا جارہا ہے، پس فرمایا (آیت) ” ولا تھنوا “۔ یعنی اے اصحاب محمد ﷺ کمزوری نہ دکھاؤ اور اپنے دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے سے بزدلی کا اظہار نہ کرو اس تکلیف کی وجہ سے جو تمہیں پہنچی۔ (آیت) ” ولا تحزنوا “ اور اپنی پشتوں پر غم سوار نہ کرو، اور نہ ہی اس ہزیمت اور مصیبت کے سبب غمزدہ ہو جو تمہیں پہنچی، (آیت) ” ان کنتم مؤمنین “۔ یعنی اگر تم میرے وعدہ کی سچائی کے ساتھ ایمان رکھتے ہو، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان بمعنی اذ ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : رسول اللہ ﷺ کے اصحاب احد کے دن شکست خوردہ ہوئے پس ہم ان کے درمیان اسی طرح تھے کہ اچانک خالد بن ولید مشرکین گھوڑ سواروں کے ساتھ آگیا، وہ چاہتا تھا کہ وہ ان پر پہاڑ کی جانب سے حملہ آور ہو اور غالب آئے، تو حضور نبی مکرم ﷺ نے دعا مانگی : ” اے اللہ ! وہ ہم پر غالب نہ آئے اے اللہ ! تیرے سوا ہماری کوئی قوت نہیں اے اللہ ! اس جماعت کے سوا اس شہر میں کوئی تیری عبادت نہیں کرے گا ، “ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ اور مسلمان تیر اندازوں کا ایک گروہ اکٹھا ہوا اور وہ پہاڑ پر چڑھ گئے اور انہوں نے مشرک گھوڑ سواروں پر تیر برسائے یہاں تک کہ انہیں شکست سے دو چار کردیا، پس اسی لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” وانتم الاعلون “۔ (1) یعنی احد کے بعد تم ہی دشمن پر غالب رہو گے، پس اس کے بعد انہوں نے کوئی لشکر نہیں بھیجا مگر انہیں ہر اس جنگ میں کامیابی و کامرانی نصیب ہوئی جو رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ہوئی اور ہر اس جنگ میں جو رسول اللہ کے بعد ہوئی اور اس میں صحابہ کرام میں سے کوئی ایک بھی ہوا تو ظفر وفتح ان کا مقدر بنی، اور یہ تمام شہر رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے عہد میں ہی فتح ہوئے، پھر ان کے ختم ہوجانے کے بعد اس طرح کوئی شہر بھی فتح نہیں ہوا جس طرح وہ اس وقت میں فتح کرتے تھے، اس آیت میں اس امت کی فضیلت کا بیان ہے، کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ خطاب فرمایا ہے جس کے ساتھ اس نے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کو خطاب فرمایا ہے، کیونکہ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرمایا : (آیت) ” انک انت الاعلی “۔ (طہ) ترجمہ : یقینا تم ہی غالب رہو گے۔ اور اس امت کو فرمایا : (آیت) ” وانتم الاعلون “۔ اور یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی الاعلی سے مشتق ہے پس اس کی ذات پاک اور بلند ہے اور مومنین کے لئے فرمایا (آیت) ” وانتم الاعلون “۔
Top