Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 139
وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
وَلَا تَهِنُوْا : اور سست نہ پڑو وَلَا تَحْزَنُوْا : اور غم نہ کھاؤ وَاَنْتُمُ : اور تم الْاَعْلَوْنَ : غالب اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور پست ہمت نہ بنو اور غم نہ کھائو اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو
وَلاَ تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْـتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْـتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ (اور پست ہمت نہ بنو اور غم نہ کھائو اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو) (139) مسلمانوں کے خیالات کی اصلاح اور حوصلہ افزائی احد کی شکست سے کمزور قسم کے لوگوں میں جو دل شکستگی پیدا ہوئی اس سے ایک طرف تو کمزور مسلمانوں کے دماغوں میں بہت سے وسوسوں نے جگہ بنا لی اور دوسری طرف منافقین اور یہود کو باتیں بنانے کا موقع مل گیا۔ کمزور مسلمان یہ سوچتے تھے کہ ہم اگر حق پر ہیں اور ہم میں واقعی اللہ کے رسول موجود ہیں تو پھر ہمیں شکست کیوں ہوئی اور منافقین اور یہود مسلمانوں کے دلوں میں مزیدوسوسے پیدا کرتے تھے کہ تم آج تک یہ سمجھتے رہے ہو کہ محمد ﷺ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ وہ جو اللہ کی تائید و نصرت کی باتیں کرتے ہیں اور فتح و غلبہ کی نوید سناتے ہیں، وہ واقعی ایک حقیقت ہے۔ لیکن احد کی شکست نے یہ ثابت کردیا کہ یہ سب پا در ہوا باتیں تھیں جس کے ذریعے اپنا ایک بھرم قائم رکھنا مقصود تھا اور مسلمانوں کو اس طرح سے عقیدت و محبت کی زنجیروں میں باندھنا مطلوب تھا کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ کسی کی عقیدت میں مبتلا ہوتا ہے تو پھر اس کی ہر بات کو حجت سمجھتا ہے اور اگر کوئی بات بالکل ہی لایعنی ہوتی ہے تو اس کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کرتا ہے۔ منافقین یہ کہہ رہے تھے کہ تمہارا بھی آج تک یہی معمول رہا ہے۔ تم نے جو بات سنی اس پر کمر بستہ ہوگئے۔ لیکن اب اصل حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اب تمہیں اپنے ایمان کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے۔ قرآن کریم میں ان تصورات کا ابطال اور اس پر اپیگنڈے کو رد کرتے ہوئے مسلمانوں کو اصل حقیقت سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے کی آیات کریمہ میں مسلمانوں کی چند کمزوریوں کی نشاندہی فرمائی اور پھر صاف صاف فرمایا کہ اللہ کے یہاں سیرت و کردار کی پختگی اور اصولوں کی پابندی کام آتی ہے اور اسی کے مطابق فتح و شکست کے فیصلے ہوتے ہیں۔ احد میں جو کچھ ہوا وہ ان حقائق سے یکسر مختلف نہیں بلکہ انہی حقائق کی حرف بہ حرف تائید ہے اور پیش نظر آیت کریمہ میں مسلمانوں کا حوصلہ بندھاتے ہوئے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ تم یہ مت سمجھو کہ احد کی شکست تمہاری زندگی کا آخری معرکہ ہے۔ یہ ایک واقعہ تھا جو تمہاری کمزوریوں کی وجہ سے رونما ہوا۔ آئندہ اگر تم اپنی کمزوریوں کا سدباب کرلو اور اپنی کوتاہیوں پر قابو پالو اور بجائے جنگ احد کے واقعات سے ہراساں اور دل گرفتہ ہونے کے زخمی شیر کی طرح انگڑائی لے کر اٹھو تو مستقبل اب بھی تمہارا ہے۔ اس لیے اس آیت میں فرمایا کہ کمزوری نہ دکھائو، اس حادثے کی وجہ سے جو رونما ہوچکا اور غم نہ کھائو اس نقصان پر جو تمہیں پہنچ چکا۔ وھن سے مراد لاَ تَہِنُوْا، وہن سے ہے۔ وہن کا معنی ” کمزوری اور ضعف “ کے ہیں۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ ” ایک زمانہ آئے گا کہ جب تم سیلاب کے خس و خاشاک کی طرح ہوجاؤ گے۔ دنیا تم پر اس طرح چڑھ دوڑے گی جیسے بھوکے دسترخوان پر جھپٹتے ہیں۔ “ صحابہ نے پوچھا ” کیا ہم اس وقت بہت تھوڑے ہوں گے ؟ “ آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری تعداد تو ریت کے ذروں کی طرح ہوگی۔ “ صحابہ نے پوچھا ” پھر ہمیں کیا ہوجائے گا ؟ “ کیونکہ ان کے سامنے اپنی تاریخ تھی جس کی وجہ سے انھیں یہ بات بعید از قیاس معلوم ہو رہی تھی۔ وہ سوچتے تھے کہ جب ہماری تعداد تین سو تیرہ ہوئی تو ہم نے ایک ہزار کے لوہے میں ڈھلے ہوئے لشکر کا بھرکس نکال دیا اور جب ہم سات سو ہوئے تو اپنی غلطیوں کے باعث اگرچہ ہم نے زخم اٹھائے لیکن دشمن ہم پر غالب نہ آسکا۔ ہم اپنے آخری معرکے میں تیس ہزار تھے جب کہ مقابلے پر اپنے وقت کی سب سے بڑی قوت رومن ایمپائر تھی۔ ہم ان کے ملک کی سرحدوں تک پہنچے لیکن انھیں آگے قدم بڑھانے کی جرأت نہ ہوئی تو آخر ہمیں کیا ہوجائے گا کہ دنیا ہمیں تر نوالہ سمجھنے لگے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” تمہیں وہن کی بیماری لگ جائے گی۔ “ صحابہ نے پوچھا ” وہ کیا ہے ؟ “ آپ ﷺ نے فرمایا ” دو بیماریوں کا مرکب ہے۔ حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاہَۃُ الْمَوْتِ (دنیا کی محبت اور موت کا ڈر) یہ حدیث وہن کی بہترین تشریح ہے۔ اس آیت کریمہ میں یہی فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو دنیا کی کوئی طاقت تم پر غالب نہیں آسکتی۔ لیکن اگر تم وہن کا شکار ہوجاؤ یعنی تم آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے لگو، تمہاری نگاہوں میں اصل قدروقیمت درہم و دینار کی ہو، تم دنیا کے خزف ریزوں کے بدلے اقدارِ انسانیت کا سودا کرنے کے لیے بھی تیار ہوجاؤ۔ اس کے ساتھ ساتھ تمہیں موت کا ڈر اور خوف کسی بڑے معرکے میں شریک ہونے کی اجازت نہ دے۔ جب آدمی دنیا سے محبت کرتا ہے تو پھر زندگی اسے اس قدر عزیز ہوجاتی ہے کہ وہ ہر وقت موت سے خوف کھاتا ہے۔ اسے ہر جگہ موت کا سایہ دکھائی دیتا ہے۔ اسے دنیا چونکہ آخرت سے زیادہ پیاری ہے اس لیے وہ ایسے معرکے میں کبھی شریک نہیں ہوتا جس میں موت کا سامنا کرنے کا اندیشہ ہو۔ زندگی موت سے خراج لینے کا نام ہے۔ جو موت سے ڈرتا ہے وہ زندگی کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ لوگ موت کا ایک دفعہ شکار ہوتے ہیں وہ ہر روز موت کا شکار ہوتا ہے۔ ایسے شخص سے کسی بڑے معرکے کی توقع کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اکبر مرحوم نے ٹھیک کہا ؎ جو دیکھی ہسٹری تو دل کو پھر کامل یقیں آیا جسے مرنا نہیں آیا اسے جینا نہیں آیا
Top