Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 139
وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
وَلَا تَهِنُوْا : اور سست نہ پڑو وَلَا تَحْزَنُوْا : اور غم نہ کھاؤ وَاَنْتُمُ : اور تم الْاَعْلَوْنَ : غالب اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور (دیکھو) بے دل نہ ہونا اور نہ کسی طرح کا غم کرنا اگر تم مومن (صادق) ہو تو تم ہی غالب رہو گے
و لا تھنوا اور احد کے دن تمہارے جو آدمی قتل یا زخمی ہوگئے ان کی وجہ سے تم دشمنوں کے مقابلہ سے کمزور اور بےہمت نہ ہو۔ و لاتحزنوا اور مقتولوں کے قتل کا رنج نہ کرو۔ و انتم الاعلون حالانکہ تم ہی ان سے اونچے ہو کیونکہ اس مصیبت کے اجر وثواب کے تم امید وار ہو اور کافروں کو آئندہ ثواب کی امید نہیں۔ تمہارے مقتولین جنت میں ہیں اور ان کے مقتول دوزخ میں۔ احد کی لڑائی میں پانچ مہاجر حضرت حمزہ اور حضرت مصعب وغیرہ اور ستر انصاری شہید ہوئے تھے۔ یہی مفہوم ہے ایک اور آیت کا جس میں فرمایا ہے : وَ لَا تَھِنُوْا فِی ابْتِغَآءِ الْقَوْمِ اِنْ تَکُوْنُوْا تَالَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَاْلَمُوْنَ کَما تَاْلَمُوْنَ وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللہ مَا لَا یَرْجُوْنَ کلبی کا بیان ہے کہ جنگ احد میں مسلمانوں کو زخمی ہونے کی تکلیف ہوئی لیکن باوجود زخمی ہوجانے کے رسول اللہ نے ان کو دشمن کے تعاقب کا حکم دیا یہ حکم مسلمانوں پر بار گذرا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یا یہ مطلب ہے کہ آخر میں تم ہی غالب رہو گے اللہ کی طرف سے تم کو ہی فتح وظفر حاصل ہوگی۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ گھاٹی میں صحابہ کو شکست ہوگئی خالد بن ولید مشرکوں کا سوار دستہ ساتھ لے کر یہاں پر چڑھ کر اوپر سے حملہ کرنا چاہتے تھے۔ رسول اللہ نے دعا کی اے اللہ یہ ہمارے اوپر نہ آئے ہم کو تیرے سوا کسی اور کی قوت حاصل نہیں۔ مسلمان تیر اندازوں کی ایک جماعت پہاڑ پر چڑھ گئی تھی اور انہوں نے رات وہیں گذاری تھی اس گروہ نے مشرک رجمنٹ کو تیروں پر رکھ لیا اور بھگا دیا آیت : و انتم الاعلون کا یہی مطلب ہے۔ ان کنتم مومنین یعنی اگر تم ایماندار ہو اور تمہارا ایمان پکا ہے تو کمزور اور رنجیدہ نہ ہو کیونکہ ثواب کی امید رکھنا اور اللہ پر بھروسہ کرکے قوی دل ہونا ایمان کا تقاضا ہے یا یہ مطلب ہے کہ اگر تمہارا ایمان درست ہوگا تو تم ہی آخر میں غالب رہو گے کیونکہ اہل ایمان کی مدد کرنے کا ہمارا ذمہ ہے۔
Top