Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 139
وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
وَلَا تَهِنُوْا : اور سست نہ پڑو وَلَا تَحْزَنُوْا : اور غم نہ کھاؤ وَاَنْتُمُ : اور تم الْاَعْلَوْنَ : غالب اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور نہ سست ہو اور نہ غم کھاؤ، اور تم ہی بلند رہو گے ، اگر تم ایماندار ہوئے۔
ربط آیات : غزوہ احد کے موقع پر مسلمانوں میں جو کمزوری واقع ہوگئی تھی۔ اس کے ازالے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بعض احکام نازل فرمائے کہ اللہ تعالیٰ نے سود خوری سے منع فرمایا۔ غلطیوں اور کوتاہیوں سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ غصے کو دبانے اور لوگوں کو معاف کرنے کی تعلیم دی۔ ہر خوشی اور تکلیف میں راہ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب دلائی۔ اور پھر اگر کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس سے تائب ہونے کا طریقہ بتلایا۔ کہ انسان اللہ تعالیٰ اور اس کی وعید کو یاد کرکے اس سے بخشش طلب کرے ، گناہ کی معافی مانگے اور آئندہ کے لیے ایسی برائی سے رک جائے ، اس پر اصرار نہ کرے۔ جو کوئی ان احکام پر عمل پیرا ہوگا اسے اللہ تعالیٰ کی بخشش نصیب ہوگی اور اللہ کی ہر نعمت اس کے شامل حال ہوگی۔ مسلمانوں کی حوصلہ افزائی : آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے کہ اگر کسی وقت کوئی کمزوری واقع ہوجائے ، کوئی غلطی سرزد ہوجائے ، تو انسان کو دل نہیں ہار دینا چاہئے۔ کہ جہاد سے ہی منہ موڑ لے۔ بلکہ اسے نئے ولولے اور نئے جوش و خروش کے ساتھ جہاد کی تیاری کرنی چاہئے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ولاتھنوا۔ اور سست نہ ہوجاؤ۔ عربی زبان میں وھن۔ سستی اور کمزوری کو کہا جاتا ہے۔ اور دین کے معاملہ میں یعنی جہاد کرنے یا کسی دوسری نیکی کرنے کے سلسلے میں وہن کو اختیار کرنا اچھی صفت نہیں ہے۔ حدیث شریف میں وہن کی مذمت آئی ہے۔ حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے فرمایا ، جب تمہارے اندر وہن پیدا ہوجائے گا ، تو تمہاری حالت تنزل اور پستی میں چلی جائے گی۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا ، حضور ! وھن کیا چیز ہے۔ فرمایا حب الدنیا کراھیۃ الموت۔ یعنی جب لوگوں کے دلوں میں دنیا کی محبت اور موت سے کراہت پیدا ہوجائے گی ، تو تم نہایت پستی میں چلے جاؤگے۔ مقصد یہ کہ وہن کو اختیار نہ کرو دین کے معاملہ میں کمزوری اور سستی کا مظاہرہ نہ کرو۔ فرمایا۔ ولا تحزنوا۔ اور جو نقصان ہوچکا ہے۔ اس پر غمگین نہ ہو۔ جو زخم غزوہ احد میں لگ چکا ہے۔ بڑے بڑے اکابر صحابہ شہید ہوئے ہیں۔ خود نبی کریم ﷺ کو تکلیف پہنچی ہے۔ اس پر غمگین نہ ہو۔ اور نہ سستی دکھاؤ۔ یہ درست ہے کہ اس موقع پر بڑی تکلیف پہنچی ہے۔ مگر اس وقت شکست میں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں جو تمہاری بلآخر کامیابی پر منتج ہوگی۔ لہذا ایاد رکھو ! وانتم الاعلون ان کنتم مومنین۔ اگر تم ایمان پر قائم رہے تو دشمن کے مقابلے میں تم ہی بلند رہوگے۔ اللہ تعالیٰ کا تمہارے ساتھ وعدہ ہے۔ کہ ایمان کے تقاضوں کو تم پورا کرتے رہو اور وہ تمہیں دشمن پر غالب کردے گا۔ جنگ قادسیہ : اصول کے طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اہل اسلام کو جب کبھی کوئی پریشانی لاحق ہوجائے ، تو انہیں فوراً اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ایمان کے تقاضے میں کہاں کمزوری واقع ہوئی ہے۔ لازماً کوئی نہ کوئی غلطی سرزد ہوئی ہوگی۔ قادسیہ کی جنگ کے سالار حضرت سعد بن ابی وقاص تھے۔ دوران جنگ جب بعض مورچوں پر مسلمانوں کو کچھ پریشانی لاحق ہوئی تو آپ نے مجاہدین کو جمع فرمایا اور کہا ، اے لوگو ! میں سمجھتا ہوں کہ ہماری یہ کمزوری کسی گناہ کی وجہ سے واقع ہوئی ہے۔ ضرور ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے۔ جس کی ہمیں تلافی کرنی چاہئے۔ آؤ سب مل کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کامیابی عطا فرمائیگا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ تین دن رات تک متواتر جنگ ہوئی۔ آخر اللہ نے فتح عظیم عطا فرمائی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم ایمان پر قائم رہے۔ تو تم ہی غالب رہوگے۔ حالات میں تغیر و تبدل : اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا۔ دیکھو ان یمسسکم قرح۔ اگر تمہیں غزوہ احد میں زخم پہنچا ہے۔ بڑے بڑے عظیم المرتبت ستر صحابہ کرام ؓ شہید ہوئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے ہیں۔ تو یہ کوئی ایسی تکلیف نہیں جو صرف تمہیں پہنچی ہے۔ اس قسم کا زخم کافروں کو تو پہلے ہی لگ چکا ہے۔ فقد مس القوم قرح مثلہ۔ جنگ بدر میں ان کے بھی ستر سرکردہ آدمی مارے گئے تھے اور اتنے ہی قیدی بنے۔ پھر ان کو فدیہ دینا پڑا اور بڑی ذلت اٹھانا پڑی۔ یاد رکھو ! انسان کبھی ایک حالت پر قائم نہیں رہتے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور مصلحت کے مطابق حالات میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے۔ کہ جب ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا کہ تمہارے اور مسلمانوں کے درمیان معاملات کیسے رہتے ہیں ، ان کے ساتھ کبھی مٹھ بھیڑ بھی ہوئی ہے۔ اور اس کا کیا نتیجہ نکلا ہے۔ تو ابو سفیان نے جواب دیا۔ الحرب سجال بیننا و بینھم۔ یعنی ہمارے اور ان کے درمیان لڑائی کا معاملہ پانی کے ڈول کی مانند ہوتا ہے۔ کبھی کسی نے ڈول کنویں میں ڈال کر پانی نکال لیا اور کبھی کسی نے۔ یعنی لڑائی کی صورت میں کبھی ہم غالب آتے ہیں اور کبھی مسلمان غالب آتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ اللہ کے رسولوں کا معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ انہیں دشمن کے مقابلے میں کبھی فتح ہوتی ہے اور کبھی شکست مگر بالآخر اللہ نے اپنے رسولوں کو غلبہ عطا کرتا ہے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے مسلمانو احد کی عارضی شکست سے گھبراؤ نہیں۔ وتلک الایام نداولھا بین الناس۔ یہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ ہمیشہ ایک سی حالت نہیں رہتی کہ ہمیشہ فتح ہو یا ہمیشہ شکست ہو ، بلکہ یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اگر اب تکلیف پہنچی ہے۔ تو اس کا اچھا بدلہ ملیگا۔ آزمائش اور اس کی حکمت : تکلیف پہنچنے میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت رکھی ہے کہ ولیعلم اللہ الذین امنوا۔ تاکہ اللہ تعالیٰ جان لے ان لوگوں کو جو ایمان لائے۔ امام بیضاوی اور بعض دیگر مفسرین فرماتے ہیں۔ کہ یہاں پر یعلم سے مراد محض جاننا نہیں ، کیونکہ خدا تعالیٰ کا علم تو ازلی ابدی ہے۔ اس مقام پر یہ لفظ علم ظہور کا معنی دیتا ہے۔ تو مطلب یہ ہوگا۔ تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے ظاہر کردے ، ان لوگوں کو جو ایمان لائے لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اہل ایمان تکلیفیں اٹھا کر بھی ایمان پر قائم رہتے ہیں اور حق کے راستے کو ترک نہیں کرتے۔ غزوہ احد کی وقتی شکست کی دوسری حکمت یہ ہے۔ ویتخذ منکم شھداء۔ اور تاکہ تم میں شہید بنائے جو لوگ بوجوہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔ ان کی انتاہائی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں راہ حق میں جہاد کی سعادت نصیب کرے اور وہ بھی اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرکے مرتبہ شہادت پر فائز ہوں۔ چناچہ ان کی اس خواہش کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں شہادت بھی عطا فرمائی۔ یہ بھی سراسر نفع کا سودا تھا۔ فرمایا۔ واللہ لا یحب الظلمین۔ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔ محبوب خدا بننے کے لیے ایمان اور نیکی کی ضرورت ہے۔ شرک اور کفر کرنے والے اللہ کی نگاہ میں کبھی محبوب نہیں بن سکتے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے۔ کہ اگر کسی وقت اہل اسلام کو شکست ہوجائے ، ان پر غیر مسلم غالب آجائیں ، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا۔ کہ مسلمان اللہ کی نگاہ میں گرگئے ہیں۔ اور کافر محبوب بن گئے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں۔ انسانیت کے تقاضے کے مطابق کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ مسلمان آزمائش میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ مگر خدا کا دشمن کافر اور مشرک اس کا محبوب ہرگز نہیں بن سکتا۔ وقتی طور پر اس دنیا میں کافر خوشحال ہوسکتا ہے اسے کامیابی بھی حاصل ہوسکتی ہے ، اسے استدراج کہتے ہیں۔ مگر آخرت میں کافر لازماً پکڑا جائے گا۔ اور اسے کفر کا بدلہ چکانا ہوگا۔ اسی لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں سے ہرگز محبت نہیں کرتا۔ محبت کے لائق اس کے وہ بندے ہیں۔ جو اس پر ایمان لائے۔ اور اعمال صالھہ انجام دیے۔ مومنوں کا تزکیہ نفس : اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی وقتی آزمائش کی تیسری حکمت یہ بیان فرمائی ہے۔ ولیمحص اللہ الذین امنوا۔ تاکہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو پاک کردے ان کا تزکیہ نفس کردے۔ اصل پاکی تو روح اور جان کی پاکی ہوتی ہے۔ شاہ ولی اللہ اس کو نسمہ کہتے ہیں۔ شاہ اسماعیل نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب عبقات میں لکھا ہے کہ انسان کے نسمے کا پاک ہونا ضروری ہے۔ عبادت ، ریاضت ، ذکر و اذکار اسی مقصد کے لیے کیے جاتے۔ خصوصاً عبادات میں نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج وغیرہ نسمہ کی پاکیزگی کا سبب بنتے ہیں۔ جہاد ایک اتنا بڑا عمل ہے۔ جس کے ذریعے انسان اپنے جسم و جان تک کو راہ خدا میں لگا دیتا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جہاد میں مومن کو لگنے والی ایک ٹھوکر یا اس کے جسم پر آنیوالی ایک ضرب اس کے نسمہ کو پاک کرکے اسے حظیرۃ القدس کا اہل بنا دیتی ہے دشمن کی تلوار کا ایک وار حقوق العباد کے سوا اس کے تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ مقصد یہ کہ اہل ایمان کو تکلیف پہنچنے میں بھی اس کے لیے بہت سی فائدے کی چیزیں ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں۔ کہ برصغیر میں مسلمانوں پر جب زوال آیا ، تو وہ دل برداشتہ نہیں ہوئے ، بلکہ انگریز جیسی جابر طاقت کے سامنے ڈٹ گئے ، انہوں نے مسلمانوں کو ہر طریقے سے تنگ کیا ، وہ طرح طرح کی آزمائشوں میں مبتلا ہوئے۔ مگر دین کا دامن تھامے رہے اور ایمان کی حقانیت پر حرف نہیں آنے دیا۔ یہی وہ صفت ہے جس کے ذریعے انسان کا نسمہ پاک ہوتا ہے۔ اور وہ بارگاہ خداوندی میں پہنچ کر اس کے فیضان سے مستفید ہوتا ہے۔ فرمایا کفر و اسلام کے درمیان جنگ وجدال کا ایک مقصد تو مومنوں کا تزکیہ ہے اور دوسرا و یمحق الکفرین۔ اس کے ذریعے وہ کافروں کو مٹاتا ہے۔ کفر و اسلام کی بڑی جنگیں ہوئیں۔ کبھی مسلمانوں کو فح ہوئی اور کبھی کفار کا پلہ بھاری رہا۔ مگر حتمی نتیجہ کیا نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے کفر کو ایسا مٹایا کہ پورے عرب کو کافروں سے پاک کردیا۔ اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ مراکز اسلام بن گئے۔ فتح مکہ کے دن حضور ﷺ نے فرمایا کہ آج کے بعد مکہ پر چڑھائی نہیں کی جائیگی۔ بلکہ مکہ والے دیگر ممالک پر چڑھائی کریں گے۔ چناچہ تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی ہوا۔ تھوڑے ہی عرصہ مٰں آدھی دنیا پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے جہاد کے ذریعے کفر کو ملیا میٹ کردیا۔ جہاد اور صبر : اہل ایمان کی کامیابی کے لیے جہاد اور صبر بہترین ہتھیار ہیں۔ جب تک انسان میں جذبہ قربانی پیدا نہ ہو ، اس کے ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔ اور پھر اگر تکلیف پہنچنے پر صبر کا دامن چھوڑ دے تو یہ بھی اس کے ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں چیزوں کی اہمیت تنبیہ کے انداز میں بیان فرمائی ہے کہ اے اہل اسلام ! ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ۔ کیا تم گمان رکھتے ہو کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ ولما یعلم اللہ الذین جھدا منکم۔ حالانکہ ابھی تک اللہ تعالیٰ نے تم میں سے مجاہدین کو ظاہر نہیں کیا۔ جان کی بازی لگانے والوں کو پتہ تو جب چلے گا ، جب جہاد کا موقع آئے گا۔ جہاد کرنے والے لوگ اس وقت ظاہر ہوں گے ، جب وہ دشمن کے مقابلے میں آئیں گے۔ محض زبان سے کلمہ پڑھ لینے سے جنت کا ٹکٹ نہیں مل جائے گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کا موقع فراہم کرکے تمہیں آزمائیں گے ، کہ وہ کون لوگ ہیں ، جو جان کی بازی بھی لگا سکتے ہیں۔ دوسرے مقام پر فرمایا۔ ولنبلونکم بشیء من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس۔ یعنی ہم تمہیں مختلف الانواع آزمائشوں مٰں ڈال کر دیکھیں گے کہ تم میں سے کون ہیں جو ان آزمائشوں پر پورا اترتے ہیں۔ خوف اور بھوک برداشت کرنا پڑے گا اور اس کے ساتھ ساتھ مال و جان کی قربانی بھی دینا ہوگی۔ فرمایا پہلی آزمائش تو یہ وہگی۔ کہ جہاد کے لیے کون تلوار لے کر میدان میں اترتا ہے۔ اور پھر جب میدان جنگ میں تکلیف پہنچتی ہے۔ تو یہ بھی دیکھنا ہے۔ ویعلم الصبرین۔ کہ صبر کون کرتا ہے۔ تکالیف و مصائب کو برداشت کرنے کی ہمت کس میں ہے۔ اسی لیے فرمایا۔ کہ تمہیں جنت میں داخلہ یونہی نہیں مل جائے گا۔ ابھی تو ہم نے مجاہدین اور صبر کرنے والوں کو ظاہر ہی نہیں کیا۔ موت کی تمنا : آگے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یاد دلایا۔ ولقد کنتم تمنون الموت من قبل ان تلقوہ۔ تم موت آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے۔ جو لوگ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔ ان کے جذبات بڑے تیز تھے۔ وہ دشمن سے دوبارہ ٹکر لینے کے لیے بیتاب رہتے تھے۔ اور خواہش کرتے تھے کہ جہاد کا موقع آئے تو انہیں بھی شہادت جیسا بلند مقام نصیب ہو۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے حضور ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کرتے ہوئے عرض کیا تھا۔ حجور ! ہم دین حق کی خدمت کرتے رہیں گے۔ ولم نفر۔ اور بھاگیں گے نہیں۔ یہاں تک کہ ہمیں موت آجائے۔ صحابہ کرام ؓ نے اللہ کے رسول سے جو وعدہ کیا تھا ، اسے نبھا کر دکھایا۔ انہوں نے جہاد کے میدانوں میں وہ معرکے دکھائے جو ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ ان کی فتوھات کا راز اس بات میں مضمر تھا ، کہ انہوں نے موت کا چیلنج قبول کرلیا تھا۔ حضرت زبیر معرکہ مصر میں شریک تھے۔ جب قلعہ کا محاصرہ طول پکڑ گیا۔ تو فرمایا اے لوگو ! آؤ سب سے پہلے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہوں۔ مجھے ٹوکری میں ڈال کر رسی کے ذریعے قلعہ کے اندر اتار دو ۔ جب اندر پہنچ کر میں نعرہ تکبیر بلند کروں۔ تو تم بھی باہر سے جواب دینا اللہ کو منظور ہوا تو ہم کامیاب ہوں گے۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔ حضرت زبیر کو اندر اتار دو ۔ جب اندر پہنچ کر میں نعرہ تکبیر بلند کروں ، تو تم بھی باہر سے جواب دینا۔ اللہ کو منظور ہوا تو ہم کامیاب ہوں گے۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔ حضرت زبیر کو اندر اتار دیا گیا ، کچھ اور لوگ بھی دیوار پر چرھ گئے۔ آپ نے قلعہ میں داخل ہو کر تلوار چلانی شروع کردی اور اندر سے دروازہ کھول دیا۔ اسلامی فوج اندر داخل ہوگئی۔ معرکے کا رن پڑا اور قلعہ فتح ہوگیا ، یہ ہیں وہ قربانیاں جن کے ذریعے مسلمانوں نے شجر اسلام کی آبیاری کی۔ حضرت زبیر ؓ یرموک کی لڑائی میں دشمن کی دو لاکھ کی تعداد کی فوج میں اکیلے گھس گئے تھے۔ صفوں کو چیرتے ہوئے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلے گئے۔ بہادری کے خوب خوب جوہر دکھائے جسم کا کوئی حصہ زخموں سے خالی نہیں تھا۔ کندھے پر اتنا بڑا زخم کا نشان تھا کہ اس کا کڑا بن گیا تھا جس میں بچے ہاتھ ڈال کر کھیلتے رہتے تھے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یاد دلایا۔ کہ تم جہاد اور شہادت کی تمنا کرتے تھے۔ تو اب یہ موقع تمہیں فراہم کیا جا رہا ہے۔ فقد رایتموہ۔ جسے تم نے دیکھ لیا ہے۔ وانتم تنظرون۔ اور تم اسے اپنی آنکھوں کے سامنے تک رہے ہو۔ لہذا اب جان کی بازی لگانے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اور ہر قسم کی مشکلات کو سینے سے لگا لو۔ آخر کار کامیابی تمہاری ہی ہوگی۔
Top