Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 139
وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
وَلَا تَهِنُوْا
: اور سست نہ پڑو
وَلَا تَحْزَنُوْا
: اور غم نہ کھاؤ
وَاَنْتُمُ
: اور تم
الْاَعْلَوْنَ
: غالب
اِنْ كُنْتُمْ
: اگر تم ہو
مُّؤْمِنِيْنَ
: ایمان والے
اور نہ سست ہو اور نہ غم کھاؤ، اور تم ہی بلند رہو گے ، اگر تم ایماندار ہوئے۔
ربط آیات : غزوہ احد کے موقع پر مسلمانوں میں جو کمزوری واقع ہوگئی تھی۔ اس کے ازالے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بعض احکام نازل فرمائے کہ اللہ تعالیٰ نے سود خوری سے منع فرمایا۔ غلطیوں اور کوتاہیوں سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ غصے کو دبانے اور لوگوں کو معاف کرنے کی تعلیم دی۔ ہر خوشی اور تکلیف میں راہ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب دلائی۔ اور پھر اگر کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس سے تائب ہونے کا طریقہ بتلایا۔ کہ انسان اللہ تعالیٰ اور اس کی وعید کو یاد کرکے اس سے بخشش طلب کرے ، گناہ کی معافی مانگے اور آئندہ کے لیے ایسی برائی سے رک جائے ، اس پر اصرار نہ کرے۔ جو کوئی ان احکام پر عمل پیرا ہوگا اسے اللہ تعالیٰ کی بخشش نصیب ہوگی اور اللہ کی ہر نعمت اس کے شامل حال ہوگی۔ مسلمانوں کی حوصلہ افزائی : آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے کہ اگر کسی وقت کوئی کمزوری واقع ہوجائے ، کوئی غلطی سرزد ہوجائے ، تو انسان کو دل نہیں ہار دینا چاہئے۔ کہ جہاد سے ہی منہ موڑ لے۔ بلکہ اسے نئے ولولے اور نئے جوش و خروش کے ساتھ جہاد کی تیاری کرنی چاہئے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ولاتھنوا۔ اور سست نہ ہوجاؤ۔ عربی زبان میں وھن۔ سستی اور کمزوری کو کہا جاتا ہے۔ اور دین کے معاملہ میں یعنی جہاد کرنے یا کسی دوسری نیکی کرنے کے سلسلے میں وہن کو اختیار کرنا اچھی صفت نہیں ہے۔ حدیث شریف میں وہن کی مذمت آئی ہے۔ حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے فرمایا ، جب تمہارے اندر وہن پیدا ہوجائے گا ، تو تمہاری حالت تنزل اور پستی میں چلی جائے گی۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا ، حضور ! وھن کیا چیز ہے۔ فرمایا حب الدنیا کراھیۃ الموت۔ یعنی جب لوگوں کے دلوں میں دنیا کی محبت اور موت سے کراہت پیدا ہوجائے گی ، تو تم نہایت پستی میں چلے جاؤگے۔ مقصد یہ کہ وہن کو اختیار نہ کرو دین کے معاملہ میں کمزوری اور سستی کا مظاہرہ نہ کرو۔ فرمایا۔ ولا تحزنوا۔ اور جو نقصان ہوچکا ہے۔ اس پر غمگین نہ ہو۔ جو زخم غزوہ احد میں لگ چکا ہے۔ بڑے بڑے اکابر صحابہ شہید ہوئے ہیں۔ خود نبی کریم ﷺ کو تکلیف پہنچی ہے۔ اس پر غمگین نہ ہو۔ اور نہ سستی دکھاؤ۔ یہ درست ہے کہ اس موقع پر بڑی تکلیف پہنچی ہے۔ مگر اس وقت شکست میں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں جو تمہاری بلآخر کامیابی پر منتج ہوگی۔ لہذا ایاد رکھو ! وانتم الاعلون ان کنتم مومنین۔ اگر تم ایمان پر قائم رہے تو دشمن کے مقابلے میں تم ہی بلند رہوگے۔ اللہ تعالیٰ کا تمہارے ساتھ وعدہ ہے۔ کہ ایمان کے تقاضوں کو تم پورا کرتے رہو اور وہ تمہیں دشمن پر غالب کردے گا۔ جنگ قادسیہ : اصول کے طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اہل اسلام کو جب کبھی کوئی پریشانی لاحق ہوجائے ، تو انہیں فوراً اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ایمان کے تقاضے میں کہاں کمزوری واقع ہوئی ہے۔ لازماً کوئی نہ کوئی غلطی سرزد ہوئی ہوگی۔ قادسیہ کی جنگ کے سالار حضرت سعد بن ابی وقاص تھے۔ دوران جنگ جب بعض مورچوں پر مسلمانوں کو کچھ پریشانی لاحق ہوئی تو آپ نے مجاہدین کو جمع فرمایا اور کہا ، اے لوگو ! میں سمجھتا ہوں کہ ہماری یہ کمزوری کسی گناہ کی وجہ سے واقع ہوئی ہے۔ ضرور ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے۔ جس کی ہمیں تلافی کرنی چاہئے۔ آؤ سب مل کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کامیابی عطا فرمائیگا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ تین دن رات تک متواتر جنگ ہوئی۔ آخر اللہ نے فتح عظیم عطا فرمائی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم ایمان پر قائم رہے۔ تو تم ہی غالب رہوگے۔ حالات میں تغیر و تبدل : اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا۔ دیکھو ان یمسسکم قرح۔ اگر تمہیں غزوہ احد میں زخم پہنچا ہے۔ بڑے بڑے عظیم المرتبت ستر صحابہ کرام ؓ شہید ہوئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے ہیں۔ تو یہ کوئی ایسی تکلیف نہیں جو صرف تمہیں پہنچی ہے۔ اس قسم کا زخم کافروں کو تو پہلے ہی لگ چکا ہے۔ فقد مس القوم قرح مثلہ۔ جنگ بدر میں ان کے بھی ستر سرکردہ آدمی مارے گئے تھے اور اتنے ہی قیدی بنے۔ پھر ان کو فدیہ دینا پڑا اور بڑی ذلت اٹھانا پڑی۔ یاد رکھو ! انسان کبھی ایک حالت پر قائم نہیں رہتے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور مصلحت کے مطابق حالات میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے۔ کہ جب ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا کہ تمہارے اور مسلمانوں کے درمیان معاملات کیسے رہتے ہیں ، ان کے ساتھ کبھی مٹھ بھیڑ بھی ہوئی ہے۔ اور اس کا کیا نتیجہ نکلا ہے۔ تو ابو سفیان نے جواب دیا۔ الحرب سجال بیننا و بینھم۔ یعنی ہمارے اور ان کے درمیان لڑائی کا معاملہ پانی کے ڈول کی مانند ہوتا ہے۔ کبھی کسی نے ڈول کنویں میں ڈال کر پانی نکال لیا اور کبھی کسی نے۔ یعنی لڑائی کی صورت میں کبھی ہم غالب آتے ہیں اور کبھی مسلمان غالب آتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ اللہ کے رسولوں کا معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ انہیں دشمن کے مقابلے میں کبھی فتح ہوتی ہے اور کبھی شکست مگر بالآخر اللہ نے اپنے رسولوں کو غلبہ عطا کرتا ہے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے مسلمانو احد کی عارضی شکست سے گھبراؤ نہیں۔ وتلک الایام نداولھا بین الناس۔ یہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ ہمیشہ ایک سی حالت نہیں رہتی کہ ہمیشہ فتح ہو یا ہمیشہ شکست ہو ، بلکہ یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اگر اب تکلیف پہنچی ہے۔ تو اس کا اچھا بدلہ ملیگا۔ آزمائش اور اس کی حکمت : تکلیف پہنچنے میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت رکھی ہے کہ ولیعلم اللہ الذین امنوا۔ تاکہ اللہ تعالیٰ جان لے ان لوگوں کو جو ایمان لائے۔ امام بیضاوی اور بعض دیگر مفسرین فرماتے ہیں۔ کہ یہاں پر یعلم سے مراد محض جاننا نہیں ، کیونکہ خدا تعالیٰ کا علم تو ازلی ابدی ہے۔ اس مقام پر یہ لفظ علم ظہور کا معنی دیتا ہے۔ تو مطلب یہ ہوگا۔ تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے ظاہر کردے ، ان لوگوں کو جو ایمان لائے لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اہل ایمان تکلیفیں اٹھا کر بھی ایمان پر قائم رہتے ہیں اور حق کے راستے کو ترک نہیں کرتے۔ غزوہ احد کی وقتی شکست کی دوسری حکمت یہ ہے۔ ویتخذ منکم شھداء۔ اور تاکہ تم میں شہید بنائے جو لوگ بوجوہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔ ان کی انتاہائی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں راہ حق میں جہاد کی سعادت نصیب کرے اور وہ بھی اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرکے مرتبہ شہادت پر فائز ہوں۔ چناچہ ان کی اس خواہش کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں شہادت بھی عطا فرمائی۔ یہ بھی سراسر نفع کا سودا تھا۔ فرمایا۔ واللہ لا یحب الظلمین۔ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔ محبوب خدا بننے کے لیے ایمان اور نیکی کی ضرورت ہے۔ شرک اور کفر کرنے والے اللہ کی نگاہ میں کبھی محبوب نہیں بن سکتے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے۔ کہ اگر کسی وقت اہل اسلام کو شکست ہوجائے ، ان پر غیر مسلم غالب آجائیں ، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا۔ کہ مسلمان اللہ کی نگاہ میں گرگئے ہیں۔ اور کافر محبوب بن گئے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں۔ انسانیت کے تقاضے کے مطابق کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ مسلمان آزمائش میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ مگر خدا کا دشمن کافر اور مشرک اس کا محبوب ہرگز نہیں بن سکتا۔ وقتی طور پر اس دنیا میں کافر خوشحال ہوسکتا ہے اسے کامیابی بھی حاصل ہوسکتی ہے ، اسے استدراج کہتے ہیں۔ مگر آخرت میں کافر لازماً پکڑا جائے گا۔ اور اسے کفر کا بدلہ چکانا ہوگا۔ اسی لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں سے ہرگز محبت نہیں کرتا۔ محبت کے لائق اس کے وہ بندے ہیں۔ جو اس پر ایمان لائے۔ اور اعمال صالھہ انجام دیے۔ مومنوں کا تزکیہ نفس : اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی وقتی آزمائش کی تیسری حکمت یہ بیان فرمائی ہے۔ ولیمحص اللہ الذین امنوا۔ تاکہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو پاک کردے ان کا تزکیہ نفس کردے۔ اصل پاکی تو روح اور جان کی پاکی ہوتی ہے۔ شاہ ولی اللہ اس کو نسمہ کہتے ہیں۔ شاہ اسماعیل نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب عبقات میں لکھا ہے کہ انسان کے نسمے کا پاک ہونا ضروری ہے۔ عبادت ، ریاضت ، ذکر و اذکار اسی مقصد کے لیے کیے جاتے۔ خصوصاً عبادات میں نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج وغیرہ نسمہ کی پاکیزگی کا سبب بنتے ہیں۔ جہاد ایک اتنا بڑا عمل ہے۔ جس کے ذریعے انسان اپنے جسم و جان تک کو راہ خدا میں لگا دیتا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جہاد میں مومن کو لگنے والی ایک ٹھوکر یا اس کے جسم پر آنیوالی ایک ضرب اس کے نسمہ کو پاک کرکے اسے حظیرۃ القدس کا اہل بنا دیتی ہے دشمن کی تلوار کا ایک وار حقوق العباد کے سوا اس کے تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ مقصد یہ کہ اہل ایمان کو تکلیف پہنچنے میں بھی اس کے لیے بہت سی فائدے کی چیزیں ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں۔ کہ برصغیر میں مسلمانوں پر جب زوال آیا ، تو وہ دل برداشتہ نہیں ہوئے ، بلکہ انگریز جیسی جابر طاقت کے سامنے ڈٹ گئے ، انہوں نے مسلمانوں کو ہر طریقے سے تنگ کیا ، وہ طرح طرح کی آزمائشوں میں مبتلا ہوئے۔ مگر دین کا دامن تھامے رہے اور ایمان کی حقانیت پر حرف نہیں آنے دیا۔ یہی وہ صفت ہے جس کے ذریعے انسان کا نسمہ پاک ہوتا ہے۔ اور وہ بارگاہ خداوندی میں پہنچ کر اس کے فیضان سے مستفید ہوتا ہے۔ فرمایا کفر و اسلام کے درمیان جنگ وجدال کا ایک مقصد تو مومنوں کا تزکیہ ہے اور دوسرا و یمحق الکفرین۔ اس کے ذریعے وہ کافروں کو مٹاتا ہے۔ کفر و اسلام کی بڑی جنگیں ہوئیں۔ کبھی مسلمانوں کو فح ہوئی اور کبھی کفار کا پلہ بھاری رہا۔ مگر حتمی نتیجہ کیا نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے کفر کو ایسا مٹایا کہ پورے عرب کو کافروں سے پاک کردیا۔ اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ مراکز اسلام بن گئے۔ فتح مکہ کے دن حضور ﷺ نے فرمایا کہ آج کے بعد مکہ پر چڑھائی نہیں کی جائیگی۔ بلکہ مکہ والے دیگر ممالک پر چڑھائی کریں گے۔ چناچہ تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی ہوا۔ تھوڑے ہی عرصہ مٰں آدھی دنیا پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے جہاد کے ذریعے کفر کو ملیا میٹ کردیا۔ جہاد اور صبر : اہل ایمان کی کامیابی کے لیے جہاد اور صبر بہترین ہتھیار ہیں۔ جب تک انسان میں جذبہ قربانی پیدا نہ ہو ، اس کے ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔ اور پھر اگر تکلیف پہنچنے پر صبر کا دامن چھوڑ دے تو یہ بھی اس کے ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں چیزوں کی اہمیت تنبیہ کے انداز میں بیان فرمائی ہے کہ اے اہل اسلام ! ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ۔ کیا تم گمان رکھتے ہو کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ ولما یعلم اللہ الذین جھدا منکم۔ حالانکہ ابھی تک اللہ تعالیٰ نے تم میں سے مجاہدین کو ظاہر نہیں کیا۔ جان کی بازی لگانے والوں کو پتہ تو جب چلے گا ، جب جہاد کا موقع آئے گا۔ جہاد کرنے والے لوگ اس وقت ظاہر ہوں گے ، جب وہ دشمن کے مقابلے میں آئیں گے۔ محض زبان سے کلمہ پڑھ لینے سے جنت کا ٹکٹ نہیں مل جائے گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کا موقع فراہم کرکے تمہیں آزمائیں گے ، کہ وہ کون لوگ ہیں ، جو جان کی بازی بھی لگا سکتے ہیں۔ دوسرے مقام پر فرمایا۔ ولنبلونکم بشیء من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس۔ یعنی ہم تمہیں مختلف الانواع آزمائشوں مٰں ڈال کر دیکھیں گے کہ تم میں سے کون ہیں جو ان آزمائشوں پر پورا اترتے ہیں۔ خوف اور بھوک برداشت کرنا پڑے گا اور اس کے ساتھ ساتھ مال و جان کی قربانی بھی دینا ہوگی۔ فرمایا پہلی آزمائش تو یہ وہگی۔ کہ جہاد کے لیے کون تلوار لے کر میدان میں اترتا ہے۔ اور پھر جب میدان جنگ میں تکلیف پہنچتی ہے۔ تو یہ بھی دیکھنا ہے۔ ویعلم الصبرین۔ کہ صبر کون کرتا ہے۔ تکالیف و مصائب کو برداشت کرنے کی ہمت کس میں ہے۔ اسی لیے فرمایا۔ کہ تمہیں جنت میں داخلہ یونہی نہیں مل جائے گا۔ ابھی تو ہم نے مجاہدین اور صبر کرنے والوں کو ظاہر ہی نہیں کیا۔ موت کی تمنا : آگے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یاد دلایا۔ ولقد کنتم تمنون الموت من قبل ان تلقوہ۔ تم موت آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے۔ جو لوگ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔ ان کے جذبات بڑے تیز تھے۔ وہ دشمن سے دوبارہ ٹکر لینے کے لیے بیتاب رہتے تھے۔ اور خواہش کرتے تھے کہ جہاد کا موقع آئے تو انہیں بھی شہادت جیسا بلند مقام نصیب ہو۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے حضور ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کرتے ہوئے عرض کیا تھا۔ حجور ! ہم دین حق کی خدمت کرتے رہیں گے۔ ولم نفر۔ اور بھاگیں گے نہیں۔ یہاں تک کہ ہمیں موت آجائے۔ صحابہ کرام ؓ نے اللہ کے رسول سے جو وعدہ کیا تھا ، اسے نبھا کر دکھایا۔ انہوں نے جہاد کے میدانوں میں وہ معرکے دکھائے جو ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ ان کی فتوھات کا راز اس بات میں مضمر تھا ، کہ انہوں نے موت کا چیلنج قبول کرلیا تھا۔ حضرت زبیر معرکہ مصر میں شریک تھے۔ جب قلعہ کا محاصرہ طول پکڑ گیا۔ تو فرمایا اے لوگو ! آؤ سب سے پہلے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہوں۔ مجھے ٹوکری میں ڈال کر رسی کے ذریعے قلعہ کے اندر اتار دو ۔ جب اندر پہنچ کر میں نعرہ تکبیر بلند کروں۔ تو تم بھی باہر سے جواب دینا اللہ کو منظور ہوا تو ہم کامیاب ہوں گے۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔ حضرت زبیر کو اندر اتار دو ۔ جب اندر پہنچ کر میں نعرہ تکبیر بلند کروں ، تو تم بھی باہر سے جواب دینا۔ اللہ کو منظور ہوا تو ہم کامیاب ہوں گے۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔ حضرت زبیر کو اندر اتار دیا گیا ، کچھ اور لوگ بھی دیوار پر چرھ گئے۔ آپ نے قلعہ میں داخل ہو کر تلوار چلانی شروع کردی اور اندر سے دروازہ کھول دیا۔ اسلامی فوج اندر داخل ہوگئی۔ معرکے کا رن پڑا اور قلعہ فتح ہوگیا ، یہ ہیں وہ قربانیاں جن کے ذریعے مسلمانوں نے شجر اسلام کی آبیاری کی۔ حضرت زبیر ؓ یرموک کی لڑائی میں دشمن کی دو لاکھ کی تعداد کی فوج میں اکیلے گھس گئے تھے۔ صفوں کو چیرتے ہوئے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلے گئے۔ بہادری کے خوب خوب جوہر دکھائے جسم کا کوئی حصہ زخموں سے خالی نہیں تھا۔ کندھے پر اتنا بڑا زخم کا نشان تھا کہ اس کا کڑا بن گیا تھا جس میں بچے ہاتھ ڈال کر کھیلتے رہتے تھے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یاد دلایا۔ کہ تم جہاد اور شہادت کی تمنا کرتے تھے۔ تو اب یہ موقع تمہیں فراہم کیا جا رہا ہے۔ فقد رایتموہ۔ جسے تم نے دیکھ لیا ہے۔ وانتم تنظرون۔ اور تم اسے اپنی آنکھوں کے سامنے تک رہے ہو۔ لہذا اب جان کی بازی لگانے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اور ہر قسم کی مشکلات کو سینے سے لگا لو۔ آخر کار کامیابی تمہاری ہی ہوگی۔
Top