Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 54
اُولٰٓئِكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يُؤْتَوْنَ : دیا جائے گا انہیں اَجْرَهُمْ : ان کا اجر مَّرَّتَيْنِ : دہرا بِمَا صَبَرُوْا : اس لیے کہ انہوں نے صبر کیا وَيَدْرَءُوْنَ : اور دور کرتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : بھلائی سے السَّيِّئَةَ : برائی کو وَمِمَّا : اور اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے دیا انہیں يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کرتے ہیں
وہ لوگ پائیں گے اپنا ثواب دوہرا اس بات پر کہ قائم رہے اور بھلائی کرتے ہیں برائی کے جواب میں اور ہمارا دیا ہوا کچھ خرچ کرتے رہتے ہیں
اُولٰۗىِٕكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَيْنِ ، یعنی مومنین اہل کتاب کو دو مرتبہ اجر دیا جائے گا۔ قرآن کریم میں اسی طرح کا وعدہ ازواج مطہرات کے متعلق بھی آیا ہے۔ وَمَنْ يَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّــؤْتِهَآ اَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ ، اور صحیح بخاری کی ایک حدیث میں تین شخصوں کے لئے دوہرے اجر کا ذکر فرمایا ہے ایک وہ اہل کتاب جو پہلے اپنے سابق نبی پر ایمان لایا پھر رسول اللہ ﷺ پر، دوسرا وہ شخص جو کسی کا مملوک غلام ہو اور وہ اپنے آقا کی بھی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہو اور اللہ اور اس کے رسول کی بھی، تیسرا وہ شخص جس کی ملک میں کوئی کنیز تھی جس سے بلا نکاح صحبت اس کے لئے حلال تھی اس نے اس کو اپنی غلامی سے آزاد کردیا پھر اس کو منکوحہ زوجہ بنا لیا۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ان چند قسموں کو دو مرتبہ اجر دینے کی علت کیا ہے اگر کہا جائے کہ ان دونوں کے ردعمل اس دوہرے اجر کا سبب ہیں کیونکہ مومنین اہل کتاب کے دو عمل یہ ہیں کہ پہلے ایک نبی اور اس کی کتاب پر ایمان لائے پھر دوسرے نبی اور اس کی کتاب پر اور ازواج مطہرات کے دو عمل یہ ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری ہے، اللہ و رسول کی بھی اور آقا کی بھی، اور کنیز کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرنے والے کا ایک عمل صالح اس کو آزاد کرنا دوسرا اس کو منکوحہ زوجہ بنا لینا ہے۔ مگر اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو عمل کے دو اجر ہونا تو مقتضائے عدل و انصاف ہونے کی وجہ سے سب کے لئے عام ہے اس میں مومنین اہل کتاب یا ازواج مطہرات وغیرہ کی کیا خصوصیت ہے جو شخص بھی دو عمل کرے گا دو اجر پائے گا ؟ اس سوال کے جواب کی مکمل تحقیق احقر نے احکام القرآن سورة قصص میں لکھی ہے اس میں جو بات خود الفاظ قرآن کی دلالت سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان تمام اقسام میں مراد صرف دو اجر نہیں، کیونکہ وہ تو ہر عمل کرنے والے کے لئے عام ضابطہ قرآنیہ ہے لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ جتنے نیک عمل کرے گا اسی کے حساب سے اجر پائے گا۔ بلکہ ان اقسام مذکورہ میں دو اجر سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں کو ان کے ہر عمل کا دوہرا ثواب ملے گا۔ ہر نماز پر اس کا دوہرا، ہر روزہ پر اس کا دوہرا، ہر صدقہ اور حج وعمرہ پر اس کا دوہرا ثواب ملے گا۔ قرآن کے الفاظ پر غور کریں تو دو اجر دینے کے لئے مختر لفظ اجرین کا تھا مگر قرآن نے اس کو چھوڑ کر اجر مرتین کا لفظ اختیار کیا جس میں صاف اشارہ اس کا پایا جاتا ہے کہ اجر مرتین سے مراد یہ ہے کہ ان کا ہر عمل مکرر لکھا جائے گا اور ہر عمل پر دوہرا ثواب ملے گا۔
رہا یہ معاملہ کہ ان کی اتنی بڑی فضیلت اور خصوصیت کا سبب کیا ہے تو اس کا واضح جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ کسی خاص عمل کو دوسرے اعمال سے افضل قرار دیدے اور اس کا اجر بڑھا دے، کسی کو اس سوال کا حق نہیں ہے کہ روزہ کا ثواب اللہ تعالیٰ نے اتنا زیادہ کیوں کردیا، زکوٰۃ و صدقہ کا کیوں ایسا نہ کیا ؟ ہوسکتا ہے کہ یہ اعمال جن کا ذکر آیات مذکور اور حدیث بخاری میں ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا درجہ دوسرے اعمال سے ایک حیثیت میں بڑھا ہوا ہو اس پر یہ انعام فرمایا اور بعض اکابر علماء نے جو اس کا سبب ان لوگوں کی دوہری مشقت کو قرار دیا ہے وہ بھی اپنی جگہ متحمل ہے اور اسی آیت کے آخر میں لفظ بِمَا صَبَرُوْا سے اس پر استدلال ہوسکتا ہے کہ علت اس دوہرے اجر کی ان کا مشقت پر صبر کرنا ہے۔ واللہ اعلم
وَيَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ یعنی یہ لوگ برائی کو بھلائی کے ذریعہ دور کرتے ہیں۔ اس برائی اور بھلائی کی تعبیر میں ائمہ تفسیر کے بہت سے اقوال ہیں۔ بعض نے فرمایا کہ بھلائی سے اطاعت اور برائی سے معصیت مراد ہے کیونکہ نیکی بدی کو مٹا دیتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل سے فرمایا اتبع الحسنة السیئۃ تمحھا یعنی بدی اور گناہ کے بعد نیکی کرو تو وہ گناہ کو مٹا دے گی اور بعض حضرات نے فرمایا حسنہ سے مراد علم و حلم اور سیہ سے مراد جہل و غفلت ہے یعنی یہ لوگ دوسروں کی جہالت کا جواب جہالت کے بجائے حلم و بردباری سے دیتے ہیں اور درحقیقت ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ لفظ حسنہ اور سیہ یعنی بھلائی اور برائی کے الفاظ ان سب چیزوں کو شامل ہیں۔
اس آیت میں دو اہم ہدایتیں ہیں
اول یہ کہ اگر کسی شخص سے کوئی گناہ خطاء سرزد ہوجائے تو اس کا علاج یہ ہے کہ اس کے بعد نیک عمل کی فکر کرے تو نیک عمل اس گناہ کا کفارہ ہوجائے گا جیسا کہ حدیث معاذ کے حوالہ سے اوپر بیان ہوچکا ہے۔ دوسرے یہ کہ جو شخص کسی کے ساتھ ظلم اور برائی سے پیش آئے اگرچہ قانون شرع کی رو سے اس کو اپنا انتقام لے لینا جائز ہے بشرطیکہ انتقام برابر سرابر ہو کہ جتنا نقصان یا تکلیف اس کو پہنچائی ہے اتنا ہی یہ اپنے حریف کو پہنچاوے مگر اولی اور احسن یہ ہے کہ انتقام کے بجائے برائی کے بدلہ میں بھلائی اور ظلم کے بدلہ میں احسان کرے کہ یہ اعلی درجہ مکارم اخلاق کا ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے منافع بیشمار ہیں۔ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں یہ ہدایت بہت واضح الفاظ میں اس طرح آئی ہے ۭ اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ، یعنی برائی اور ظلم کو ایسے طریقہ سے دفع کرو جو کہ بہتر ہے۔ (یعنی ظلم کے بدلہ میں احسان کرو) تو جس شخص کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے وہ تمہارا مخلص دوست بن جائے گا۔
Top