Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 54
اُولٰٓئِكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يُؤْتَوْنَ : دیا جائے گا انہیں اَجْرَهُمْ : ان کا اجر مَّرَّتَيْنِ : دہرا بِمَا صَبَرُوْا : اس لیے کہ انہوں نے صبر کیا وَيَدْرَءُوْنَ : اور دور کرتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : بھلائی سے السَّيِّئَةَ : برائی کو وَمِمَّا : اور اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے دیا انہیں يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کرتے ہیں
یہ لوگ ہیں کہ ان کو دہرا اجر ملے گا بوجہ اس کے کہ وہ ثابت قدم رہے اور وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے اور ہم نے جو رزق ان کو دے رکھا ہے
فرمایا کہ یہ لوگ ہیں جو اپنی اس استقامت کے صلہ میں دہرا جر پائیں گے۔ ایک اجر تو انہیں اس بات کا ملے گا کہ ان کو دین حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے ملا، اپنی قوم کے عام بگاڑ کے باوجود، وہ اس پر ثابت قدم رہے۔ دوسرا اس بات کا کہ جس نبی خاتم اور دین کامل کی پشین گوئی حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) نے کی تھی وہ برابر اس کے لئے چشم براہ رہے اور جب وہ آیا تو انہوں نے یوسف گم گشتہ کی طرح اس کا استقبال کیا۔ بمعا صبرو کی صفت کے حوالہ کا یہاں ایک خاص محل ہے جس کو نگاہ میں رکھیے وہ یہ کہ ان لوگوں کو اپنے سابق دین پر قائم رہنے کے لئے بھی بڑے زہرہ گداز مصائب کا مقابلہ کرنا پڑا تھا اور جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان کو اپنی قوم اور قریش دونوں کی مخالفت سے دوچار ہونا ڑا لیکن ان تمام مخالفتوں کا انہوں نے پوری پامردی سے مقابلہ کیا۔ نصاریٰ میں سے شمعون کے پر ہوئوں نے اپنی قوم کے مبتدعین و محرفین کے ہاتھوں ج ومصائب جھیلے ان کی تفصیل تاریخ کی کاتبوں میں بھی موجود ہے اور ہم نے بھی اس کتاب میں جگہ جگہ اس کا ذکر کیا ہے۔ یہی اہل حق تھے جن کو قرآن کی دعوت قبول کرنے کی توفیق حاصل ہوئی اور قرآن نے متعدد سورتوں میں ان کی حق دوستی و ثابت قدمی کی تعریف فرمائی ہے۔ صالحین اہل کتاب کا کردار ویدروئون بالحسنۃ المسئۃ حسنۃ سے مراد یہاں صبر و عزیمت اور عفو و درگزر ہے اور سیئۃ سے مخالفین کے اعتراضات و مطاعن اور ان کے سب و شتم کی طرف اشارہ ہے۔ ان لوگوں نے جب اپنے قبول اسلام کا اظہار کا تو ان کی قوم نے بھی ان کو دین آبائی کا دشمن اور ملت کا غدار قرار دیا اور دوسرے اعدائے حق نے بھی ان کو اپنے لعن طعن کا ہدف بنا لای لیکن ان لوگوں نے ہر حملہ کا جواب مومنانہ شرافت اور کریمانہ عفو و درگزر سے دیا۔ ومما رزقنھم ینفقون کا بھی یہاں ایک خاص محل ہے جس کو نگاہ میں رکھنا چاہئے۔ قرآن نے جگہ جگہ اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اہل کتاب بالخصوص یہود کے لئے قبول اسلام کی راہ میں جو چیز سب سے بڑی رکاوٹ بنی وہ ان کی زر پرستی ہے۔ اس سورة میں بھی آگے ان کے قارون کا ذکر آ رہا ہے اور دوسری سورتوں میں بھی ان کی قارونی اور قارون پرستانہ ذہنیت کا ذکر بار بار ہوا ہے جن لوگوں کو زر پرستی کا روگ لگ جاتا ہے وہ کبھی حق قبول کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ سیدنا مسیح نے فرمایا کہ جس طرح اونٹ سوٹی کے ناکے میں نہیں جاسکتا اسی طرح دلوت مند خدا کی بادشاہی میں نہیں داخل ہوسکتا۔ سورة لہب سے واضح ہوتا ہے کہ ابولہب کی عداوت اسلام میں بھی سب سے زیادہ دخل اس کی زر پرستی اور حرص مال ہی کو تھا یہاں ان صادقین کی صفت مما رزقنھم ینفقون کا حوالہ دے کر قرآن اسی حقیقت کو واضح کرنا چاہتا ہے کہ ان لوگوں کو طمع مال کی بیماری نہیں لگی تھی اس وجہ سے ان کو قبول اسلام کی توفیق حاصل ہوئی۔
Top