Tafseer-e-Mazhari - Al-Qasas : 54
اُولٰٓئِكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يُؤْتَوْنَ : دیا جائے گا انہیں اَجْرَهُمْ : ان کا اجر مَّرَّتَيْنِ : دہرا بِمَا صَبَرُوْا : اس لیے کہ انہوں نے صبر کیا وَيَدْرَءُوْنَ : اور دور کرتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : بھلائی سے السَّيِّئَةَ : برائی کو وَمِمَّا : اور اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے دیا انہیں يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کرتے ہیں
ان لوگوں کو دگنا بدلہ دیا جائے گا کیونکہ صبر کرتے رہے ہیں اور بھلائی کے ساتھ برائی کو دور کرتے ہیں اور جو (مال) ہم نے اُن کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
اولئک یوتون اجرھم مرتین . ان لوگوں کو ان کا اجر دو مرتبہ دیا جائے گا (دوہرا اجر ملے گا) ۔ ایک بار پنی کتاب پر اور کتاب کی شہادت کے بموجب نزول قرآن سے پہلے قرآن پر ایمان لانے کا اور دوسری مرتبہ نزول قرآن کے بعد اس پر ایمان لانے کا۔ بما صبروا . بوجہ اس کے کہ وہ (نزول قرآن کے بعد اپنے ایمان پر) جمے رہے۔ جس طرح پہلے ایمان رکھتے تھے اسی طرح نزول کے بعد بھی ایمان پر قائم رہے۔ برخلاف دوسرے اہل کتاب کے کہ نزول قرآن سے پہلے تو قرآن پر ان کا ایمان تھا اور کافروں کے مقابلہ میں رسول اللہ کے طفیل سے دعاء فتح کیا کرتے تھے۔ لیکن جب وہ جانا پہچانا قرآن (یا رسول) ان کے پاس آگیا تو محض حسد کی وجہ سے ماننے سے انکار کردیا اور سابق ایمان پر قائم رہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : تین (آدمی) ہیں جن کو دوہرا ایمان ملے گا : ایک وہ کتابی جو اپنے نبی پر بھی ایمان لایا اور محمد پر بھی ایمان لائے ‘ (دوسرا) وہ مملوک غلام جس نے اللہ کا بھی حق ادا کیا اور اپنے آقاؤں کا بھی اور (تیسرا) وہ شخص جس کے پاس کوئی باندی ہو اور وہ اس کو اچھی طرح تربیت وتعلیم دے کر آزاد کر دے ‘ اس سے نکاح کرلے ‘ اس کو بھی دوہرا ثواب ہوگا۔ ویدرء ون بالحسنۃ السیءۃ . اور وہ بھلائی سے برائی کو دفعہ کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : لا الہ الا اللّٰہ کی شہادت دے کر شرک کو دفع کرتے ہیں۔ مقاتل نے کہا : مشرکوں کی طرف سے گالیاں اور برا بھلا سن کر عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں : یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ دشمنوں کی دشمنی کو ان کے ساتھ بھلائی کر کے دفع کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے : فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ جس شخص کی تم سے دشمنی ہے (اگر اس کے ساتھ احسان کرو گے) تو وہ ایسا ہوجائے گا کہ گویا وہ گہرا دوست ہے۔ یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ طاعت سے معصیت کو دفع کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے : اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ بلاشبہ نیکیاں گناہوں کو زائل کردیتی ہیں۔ رسول اللہ کا ارشاد ہے : بدی کے پیچھے نیکی کرلیا کرو کہ وہ بدی کو مٹا دے گی۔ ومما رزقنھم ینفقون . اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ (راہ خیر میں) خرچ کرتے ہیں۔
Top