Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 54
اُولٰٓئِكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يُؤْتَوْنَ : دیا جائے گا انہیں اَجْرَهُمْ : ان کا اجر مَّرَّتَيْنِ : دہرا بِمَا صَبَرُوْا : اس لیے کہ انہوں نے صبر کیا وَيَدْرَءُوْنَ : اور دور کرتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : بھلائی سے السَّيِّئَةَ : برائی کو وَمِمَّا : اور اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے دیا انہیں يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کرتے ہیں
یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کو دہرا اجر ملے گا بوجہ اس کے کہ وہ ثابت قدم رہے، وہ برائی کو بھلائی سے دفعہ کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
اُوْلٰٓئِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَھُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَیَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۔ (القصص : 54) (یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کو دہرا اجر ملے گا بوجہ اس کے کہ وہ ثابت قدم رہے، وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ) اہلِ کتاب میں سے ایمان لانے والوں پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اہلِ کتاب میں سے جن سعید روحوں کے ایمان لانے کی خبر گزشتہ آیات میں دی گئی ہے اب ان کے ایمان کی قبولیت اور اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیرمعمولی انعامات کا ذکر فرمایا جارہا ہے، لیکن ان انعامات کی تفصیل بیان کرنے کی بجائے لپیٹ کر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ نہ بیان کرنے کے باوجود بھی بیان کا حق ادا ہوگیا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ ہیں جو اپنی استقامت کے صلہ میں دہرا اجر پائیں گے۔ یعنی ایک مومن جو ایمان کے تقاضوں کو پورا کرکے اللہ تعالیٰ کے یہاں ایسے بےپایاں انعامات کا مستحق ٹھہرے گا کہ جن کا اس دنیا میں تصور کرنا بھی محال ہے۔ کیونکہ آج کون ہے جو اس کا تصور کرسکے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کے لیے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کا عرض زمین و آسمان ہیں۔ انسان آج تک آسمان کی حدود کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا، تو وہ ایسی وسیع جنت کا کیا تصور کرے گا۔ لیکن یہ ایسے خوش نصیب لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں اس امت کے مومن سے دہرا اجر عطا فرمائے گا۔ یہ خیال نہ کیا جائے کہ انھیں اس امت کے اہل ایمان پر فضیلت دی جارہی ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ بھی اسی امت کا حصہ ہیں اور اسی رسول کے امتی ہیں جس رسول کی نام لیوا یہ امت ہے۔ لیکن ان خوش نصیب لوگوں کو ایمان کے لیے دہری مشقت اٹھانی پڑی ہے کہ اہل کتاب میں سے ہوتے ہوئے پہلے وہ اپنے نبی اور اپنی کتاب پر ایمان رکھتے تھے اور مرورزمانہ کے ساتھ ساتھ اہل کتاب میں ایمان و عمل کے حوالے سے جو بیشمار خرابیاں پیدا ہوئیں اور بدعات و خرافات نے جس طرح عام زندگی پر تسلط حاصل کیا انھوں نے ہر طرف سے دامن بچا کر اپنے نبی اور کتاب کی خالص شریعت پر عمل کرنے کی کوشش کی اور اس راستے میں جو بھی مشکلات پیش آئیں انھیں خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ نبی خاتم اور دین کامل کی پیشنگوئی جو پہلی کتابوں میں کی گئی اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور دوسرے انبیائے (علیہم السلام) نے ان کا اعلان کیا، یہ برابر اس کے لیے چشم براہ رہے۔ چناچہ جب نبی آخرالزماں ﷺ تشریف لے آئے تو انھوں نے اسے یوسفِ گم گشتہ سمجھ کر آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا۔ جبکہ اہل کتاب نے اجتماعی طور پر اس دین کامل کی دعوت کو رد کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن یہ عبداللہ بن سلام کے ساتھی اور نصاریٰ میں سے شمعون کے پیروئوں نے اپنی قوم کے مبتدعین اور محرفین کے ہاتھوں انتہائی مصائب جھیلے، لیکن ان کی پامردی و استقامت میں کبھی فرق نہ آیا۔ یہی اہل حق تھے جن کو قرآن کی دعوت قبول کرنے کی توفیق حاصل ہوئی۔ اور قرآن نے متعدد سورتوں میں ان کی ثابت قدمی کو تسلیم کیا اور ان کے لیے دہرے اجر کا اعلان کیا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری سے روایت ہے جسے بخاری اور مسلم دونوں نے نقل کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ثَلاَ ثَۃٌ لَھُمْ اَجْرَانِ رُجْلٍ مِّن اَہْلِ الْکِتَابِ اٰمَنَ بِنَبِیَّہِ وَاٰمَنَ بِمُحَمَّدٍ ” تین شخص ہیں جن کو دہرا اجر ملے گا، ان میں سے ایک وہ ہے جو اہل کتاب میں سے تھا اور اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا، پھر محمد ﷺ پر ایمان لایا۔ “ اہلِ کتاب میں ایمان لانے والوں کی صفات اب ان خوش نصیب لوگوں کے کچھ اخلاقِ حسنہ بیان کیے جارہے ہیں جن میں پہلی بات یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ان کے صبر و عزیمت کا حال یہ ہے کہ اپنے بھائی بندوں اور اپنے ہم مذہبوں کے ہاتھوں انھیں اس آخری دین کے قبول کرنے کے نتیجے میں جن زہرہ گداز مصائب سے واسطہ پڑا ہے انھوں نے کبھی اس سے حوصلہ نہیں ہارا۔ اور کبھی مشتعل نہیں ہوے۔ لوگوں نے ایذائیں پہچائیں، بدزبانی سے کام لیا، تمسخر اڑایا اور ہر طرح کی توہین کی، لیکن انھوں نے ایسی ہر برائی کا جواب نیکی اور خیرخواہی سے دیا۔ وہ دکھوں کے جواب میں ہمیشہ دعائیں دیتے رہے، گالیاں سن کر ہمیشہ نصیحت سے کام لیا۔ بڑی سے بڑی تکلیف پر بھی کبھی مایوس نہ ہوئے، شرافت سے گری ہوئی حرکتیں کی گئیں لیکن ان کی مومنانہ شرافت اور کریمانہ عفو و درگزر کو کبھی شکست نہ دی جاسکی۔ مزید ایک صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ایمان لانے کے نتیجے میں صرف ان کے رویئے ہی میں تبدیلی نہیں آئی بلکہ ان کی زندگی کے اہداف بھی بدل گئے۔ بنی اسرائیل بالخصوص یہود کی شناخت آج تک زرپرستی رہی ہے۔ لیکن ان کا حال یہ ہے کہ مخالفین کی عداوت اور مخالفت نے اگرچہ ان کے مالی معاملات تلپٹ کرکے رکھ دیئے، ان کے لیے آسودگی سے گھر چلانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ باایں ہمہ جو کچھ بھی ان کے پاس آتا ہے وہ اس میں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہر نظریہ جو زندگی کا نظام پیش کرتا ہو، اجتماعی زندگی کی تعلیم دیتا ہو، ایک نئی سوسائٹی بنانے کی فکر میں ہو، ریاست کی تنظیم جس کے اہداف میں شامل ہو، جس کی منزل اجتماعی انقلاب ہو، اس کے افراد کی سب سے بڑی قوت اگرچہ ایمان اور حسن عمل ہوتی ہے لیکن اسے بروئے کار لانے کے لیے قدم قدم پر مالی معاونت کی ضرورت پڑتی ہے۔ جس دعوت کی منزل صرف درویشی اور دنیا سے لاتعلقی کو فروغ دینا ہو وہ بھی بنیادی ضرورتوں سے بےنیاز نہیں ہوسکتی۔ چہ جائیکہ وہ دعوت جو اپنے سامنے دھرتی کو ایک نیا روپ دینے کے لیے اٹھی ہو اس لیے یہ لوگ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ انھیں عطا کرتا ہے اسے اپنی حد تک محدود نہیں رکھتے بلکہ انفاق فی سبیل اللہ سے کام لیتے ہیں۔
Top