Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 63
لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
لَوْ : کیوں لَا يَنْھٰىهُمُ : انہیں منع نہیں کرتے الرَّبّٰنِيُّوْنَ : اللہ والے (درویش) وَالْاَحْبَارُ : اور علما عَنْ : سے قَوْلِهِمُ : ان کے کہنے کے الْاِثْمَ : گناہ وَاَكْلِهِمُ : اور ان کا کھانا السُّحْتَ : حرام لَبِئْسَ : برا ہے مَا : جو كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ : وہ کر رہے ہیں
کیوں نہیں منع کرتے ان کے درویش اور علماء گناہ کی بات کہنے سے اور حرام کھانے سے، بہت ہی برے عمل ہیں جو کر رہے ہیں۔
اصلاح اعمال کا طریقہ
اصلاح اعمال کا سب سے زیادہ اہتمام کرنے والے حضرات صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ ہیں۔ ان حضرات نے انہی ارشادات قرآنیہ سے یہ اہم اصول اخذ کیا ہے کہ جتنے برے یا بھلے اعمال انسان کرتا ہے اصل میں ان کا اصل سرچشمہ وہ مخفی ملکات اور اخلاق ہوتے ہیں جو انسان کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں۔ اسی لئے برے اعمال اور جرائم کی روک تھام کے لئے ان کی نظر انہی مخفی ملکات پر ہوتی ہے اور ان کی اصلاح کردیتے ہیں تو تمام اعمال خود بخود درست ہونے لگتے ہیں۔ مثلاً کسی کے دل میں مال دنیا کی حرص کا غلبہ ہے، وہ اس کے نتیجہ میں رشوت بھی لیتا ہے سود بھی کھاتا ہے اور موقع ملے تو چوری اور ڈاکہ تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے۔ حضرات صوفیائے کرام ان جرائم کا الگ الگ علاج کرنے کے بجائے وہ نسخہ استعمال کرتے ہیں جس سے ان سب جرائم کی بنیاد منہدم ہوجائے، اور وہ ہے دنیا کی ناپائیداری اور اس کی عیش و عشرت کے زہر آلود ہونے کا استحضار۔
اسی طرح کسی کے دل میں تکبر، غرور ہے یا وہ غصہ میں مغلوب ہے اور دوسروں کی تحقیر و توہین کرتا ہے۔ دوستوں اور پڑوسیوں سے لڑتا ہے۔ یہ حضرات فکر آخرت اور خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کو مستحضر کرنے والا نسخہ استعمال کرتے ہیں۔ جن سے یہ اعمال بد خودبخود ختم ہوجاتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس قرآنی اشارہ سے معلوم ہوا کہ انسان میں کچھ ملکات ہوتے ہیں جو طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں یہ ملکات خیر اور بھلائی کے ہیں تو نیک عمل خود بخود ہونے لگتے ہیں، اسی طرح ملکات برے ہیں تو برے اعمال کی طرف انسان خودبخود دوڑنے لگتا ہے، مکمل اصلاح کے لئے ان ملکات کی اصلاح ضروری ہے۔
علماء پر عوام کے اعمال کی ذمہ داری
دوسری آیت میں یہود کے مشائخ اور علماء کو اس پر سخت تنبیہ کی گئی کہ وہ ان لوگوں کو برے اعمال سے کیوں نہیں روکتے۔ قرآن میں اس جگہ دو لفظ استعمال کئے گئے ہیں، ایک ربٰنیون، جس کا ترجمہ ہے اللہ والے، یعنی عابد، زاہد، جن کو ہمارے عرف میں درویش یا پیر یا مشائخ کہا جاتا ہے۔ اور دوسرا لفظ احبار استعمال فرمایا، یہود کے علماء کو احبار کہا جاتا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اصل ذمہ داری ان دو طبقوں پر ہے ایک مشائخ، دوسرے علماء اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ ربانیون سے مراد وہ علماء ہیں جو حکومت کی طرف سے مامور اور بااقتدار ہوں اور احبار سے مراد عام علماء ہیں، اس صورت میں جرائم سے روکنے کی ذمہ داری حکام اور علماء دونوں پر عائد ہوجاتی ہے اور بعض دوسری آیات میں اس کی تصریح بھی ہے۔
علماء و مشائخ کیلئے تنبیہ
آخر آیت میں فرمایا لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ یعنی ان مشائخ و علماء کی یہ سخت بری عادت ہے کہ اپنا فرض منصبی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ بیٹھے، قوم کو ہلاکت کی طرف جاتا ہوا دیکھتے ہیں اور یہ ان کو نہیں روکتے۔
علماء مفسرین نے فرمایا کہ پہلی آیت جس میں عوام کی غلط کاریوں کا ذکر تھا، اس کے آخر میں تو لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ارشاد فرمایا گیا، وجہ یہ ہے کہ عربی لغت کے اعتبار سے لفظ فعل تو ہر کام کو شامل ہے۔ خواہ باقصد ہو یا بلا قصد اور لفظ عمل صرف اس کام کے لئے بولا جاتا ہے جو قصد و ارادہ سے کیا جائے، اور لفظ صنع اور صنعت کا ایسے کام کے لئے اطلاق کیا جاتا ہے جس میں قصد و اختیار بھی ہو اور اس کو بار بار بطور عادت اور مقصد کے درست کرکے کیا جائے، اس لئے عوام کی بدعملی کے نتیجہ میں تو صرف لفظ عمل اختیار فرمایا، ۭلَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ، اس میں اس کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ ان کے علماء و مشائخ کی یہ غلط روش کہ یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ اگر ہم ان کو منع کریں گے تو یہ ہمارا کہنا سنیں گے اور باز آجائیں گے، پھر بھی ان لوگوں کے نذرانوں کے لالچ یا بداعتقاد ہوجانے کے خوف سے ان کے دلوں میں حمایت حق کا کوئی داعیہ پیدا نہیں ہوتا، یہ ان بدکاروں کے اعمال بد سے زیادہ اشد ہے۔
جس کا حاصل یہ ہوا کہ جس قوم کے لوگ جرائم اور گناہوں میں مبتلا ہوں گے اور ان کے مشائخ و علماء کو یہ بھی اندازا ہو کہ ہم ان کو روکیں گے تو یہ باز آجائیں گے، ایسے حالات میں اگر یہ کسی لالچ یا خوف کی وجہ سے ان جرائم اور گناہوں کو نہیں روکتے تو ان کا جرم اصل مجرموں، بدکاروں کے جرم سے بھی زیادہ اشد ہے، اس لئے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ مشائخ و علماء کے لئے پورے قرآن میں اس آیت سے زیادہ سخت تنبیہ کہیں نہیں، اور امام تفسیر ضحاک نے فرمایا کہ میرے نزدیک مشائخ علماء کے لئے یہ آیت سب سے زیادہ خوفناک ہے (ابن جریر و ابن کثیر)
وجہ یہ ہے کہ اس آیت کی رو سے ان کا جرم تمام چوروں، ڈاکوؤں اور ہر طرح کے بدکاروں کے جرم سے بھی زیادہ سخت ہوجاتا ہے (العیاذ باللہ) مگر یاد رہے کہ یہ شدت اور وعید اسی صورت میں ہیں جبکہ مشائخ وعلماء کو اندازہ بھی ہو کہ ان کی بات سنی اور مانی جائے گی اور جس جگہ قرائن یا تجربہ سے یہ گمان غالب ہو کہ کوئی سنے گا نہیں، بلکہ اس کے مقابلہ میں ان کو ایذائیں دی جائیں گی تو وہاں حکم یہ ہے کہ ان کی ذمہ داری تو ساقط ہوجاتی ہے۔ لیکن افضل و اعلیٰ پھر بھی یہی رہتا ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے یہ حضرات اپنا فرض ادا کریں، اور اس میں کسی کی ملامت یا ایذاء کی فکر نہ کریں۔ جیسا کہ چند آیات میں پہلے اللہ تعالیٰ کے مقبول مجاہدین کی صفات میں گزر چکا ہے۔ (آیت) ولا یخافون لومة لٓآئم، یعنی یہ لوگ اللہ کے راستہ میں اور حق ظاہر کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس جگہ بات سننے اور ماننے کا احتمال غالب ہو وہاں مشائخ وعلماء پر بلکہ ہر مسلمان پر جس کو اس کام کا جرم و گناہ ہونا معلوم ہو فرض ہے، کہ گناہ کو روکنے اور منع کرنے میں مقدرور بھر کوشش کرے، خواہ ہاتھ سے یا زبان سے، یا کم از کم اپنے دل کی نفرت اور اعراض سے اور جس جگہ غالب گمان یہ ہو کہ اس کی بات نہ سنی جائے گی، یا یہ کہ اس کے خلاف دشمنی بھڑک اٹھے گی تو ایسی حالت میں منع کرنا اور روکنا فرض تو نہیں رہتا، مگر افضل واعلیٰ بہرحال ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے متعلق یہ تفصیلات صحیح احادیث سے مستفاد ہیں، خود نیک عمل اختیار کرنے اور برے اعمال سے بچنے کے ساتھ دوسروں کو بھی نیکی کی طرف ہدایت اور برائی سے روکنے کا فریضہ عام مسلمانوں پر اور بالخصوص علماء و مشائخ پر ڈال کر اسلام نے دنیا میں امن و اطمینان پیدا کرنے کا ایک ایسا زریں اصول بنادیا ہے کہ اس پر عمل ہونے لگے تو پوری قوم بہت آسانی کے ساتھ تمام برائیوں سے پاک ہو سکتی ہے۔
اصلاح امت کا طریقہ
اسلام کے قرون اولیٰ میں اور قرون ما بعد میں بھی جب تک اس پر عمل ہوتا رہا مسلمانوں کی پوری قوم علم و عمل، اخلاق و کردار کے اعتبار سے پوری دنیا میں سربلند اور ممتاز رہی، اور جب سے مسلمانوں نے اس فریضہ کو نظر انداز کردیا، اور جرائم کی روک تھام کو صرف حکومت اور اس کی پولیس کا فرض سمجھ کر خود اس سے علٰحدہ ہو بیٹھے تو اس کا نتیجہ وہی ہوا جو آج ہر جگہ سامنے ہے کہ ماں، باپ اور پورا خاندان دیندار اور پابند شریعت ہے مگر اولاد اور متعلقین اس کے برعکس ہیں۔ ان کا نظری اور فکری رخ بھی اور ہے اور عملی طریقے بھی جداگانہ ہیں، اسی لئے ملّت کی اجتماعی اصلاح کے لئے قرآن و حدیث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر خاص طور سے زور دیا گیا ہے۔ قرآن نے اس کام کو امت محمدیہ ﷺ کی خصوصیات میں شمار فرمایا ہے۔ اور اس کی خلاف ورزی کرنے کو سخت گناہ اور موجب عذاب قرار دیا ہے۔ حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب کسی قوم میں گناہ کے کام کئے جائیں اور کوئی آدمی اس قوم میں رہتا ہے اور ان کو منع نہیں کرتا تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں پر عذاب بھیج دے (بحر محیط)۔
گناہوں پر اظہار نفرت نہ کرنے پر وعید
مالک بن دینار رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو تباہ کردو، فرشتوں نے عرض کیا اس بستی میں تو آپ کا فلاں عبادت گزار بندہ بھی ہے، حکم ہوا کہ اس کو بھی عذاب چکھاؤ، کیونکہ ہماری نافرمانیوں اور گناہوں کو دیکھ کر اس کو بھی غصہ نہیں آیا۔ اور اس کا چہرہ غصہ سے کبھی متغیر نہیں ہوا۔
حضرت یوشع ابن نون ؑ پر اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ آپ کی قوم کے ایک لاکھ آدمی عذاب سے ہلاک کئے جائیں گے، جن میں چالیس ہزار نیک لوگ ہیں اور ساٹھ ہزار بدعمل۔ حضرت یوشع ؑ نے عرض کیا کہ رب العالمین بدکرداروں کی ہلاکت کی وجہ تو ظاہر ہے، لیکن نیک لوگوں کو کیوں ہلاک کیا جا رہا ہے ؟ تو ارشاد ہوا کہ یہ نیک لوگ بھی ان بدکرداروں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے تھے۔ ان کے ساتھ کھانے پینے اور ہنسی دل لگی کے شریک رہتے تھے، میری نافرمانیاں اور گناہ دیکھ کر کبھی ان کے چہروں پر کوئی ناگواری کا اثر تک نہ آیا (یہ سب روایات بحر محیط سے منقول ہیں)۔
Top