Baseerat-e-Quran - Al-Maaida : 63
لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
لَوْ : کیوں لَا يَنْھٰىهُمُ : انہیں منع نہیں کرتے الرَّبّٰنِيُّوْنَ : اللہ والے (درویش) وَالْاَحْبَارُ : اور علما عَنْ : سے قَوْلِهِمُ : ان کے کہنے کے الْاِثْمَ : گناہ وَاَكْلِهِمُ : اور ان کا کھانا السُّحْتَ : حرام لَبِئْسَ : برا ہے مَا : جو كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ : وہ کر رہے ہیں
آخر کیوں ان کے اللہ والے اور اہل علم انہیں گناہ کی بات کہنے سے اور حرام مال کھانے سے نہیں روکتے ؟ کتنا تباہ کن ہے جو کچھ یہ لوگ بنا رہے ہیں۔
آیت نمبر 63 لغات القرآن : لولا (کیوں نہ ہوا ؟ ) ۔ ینھاھم (انہوں نے منع کیا) ۔ الاحبار (پڑھے لکھے۔ علماء) ۔ تشریح : کوئی قوم اگر ایمان اور اخلاق سے عاری ہوکر تباہی کی طرف بھاگ رہی ہو تو اس کے بچانے کا اولین اور اہم ترین فریضہ اس کے پیران طریقت اور علماء مذہب کے سر ہے۔ مگر اہل کتاب کی بدنصیبی ہے کہ جو لوگ ان کے روحانی اور مذہبی پیشوا ہیں وہ گردو پیش کی ساری خرابیاں دیکھتے ہوئے اصلاح کے لئے میدان عمل میں نہیں آتے اور اپنے گرجا و کلیسا میں چند رسوم عبادت لئے بیٹھے ہیں بلکہ اپنے حلوے مانڈے کی خیر منا رہے ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں اگر واقعی انہوں نے اصلاح قوم کا کام شروع کردیا تو نہ صرف مخالفوں کی تقریر تنقید اور تدبیر سے مقابلہ کرنا پڑے گا بلکہ جو کچھ بھی مفت کا نذر نیاز مل رہا ہے اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان کے اللہ والے اور اہل علم صرف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ یہ فسق و فجور کی نت نئی تدبیر گھڑ کر عوام کی غلط رہنمائی کر رہے ہیں۔ یہاں پر عوام کے لئے ” یعلمون “ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور خواص کے لئے ” یصنعون “ کا۔ یعنی عوام تو لگے بندھے ڈگر پر آنکھیں بند کئے بھاگ رہے ہیں لیکن یہ خواص ہیں جو انہیں نئی نئی ترکیبیں اور نئی نئی بدعات سکھلا رہے ہیں۔ یہودیوں نے جب سبت کے احکام کی خلاف ورزی کی تو عذاب الٰہی آیا۔ نہ صرف ان پر جو گناہ گار تھے بلکہ ان زاہد و عابد حضرات پر بھی جو خاموش تماشائی بنے رہے تھے۔ امام ابو حیان نے اپنی مشہور کتاب بحر محیط میں لکھا ہے کہ حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) پر اللہ نے وحی بھیجی کہ آپ کی قوم میں ساٹھ ہزار بد اعمال ہلاک کئے جائیں گے اور ان کے ساتھ چالیس ہزار نیک لوگ بھی جو خاموش تماشائی بنے رہے۔ جو ان بدکرداروں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے تھے۔ اور تما خرابیاں دیکھنے کے باوجود ان کو تبلیغ ، تنظیم اور جہاد کا خیال تک نہ آیا۔
Top