Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 63
لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
لَوْ : کیوں لَا يَنْھٰىهُمُ : انہیں منع نہیں کرتے الرَّبّٰنِيُّوْنَ : اللہ والے (درویش) وَالْاَحْبَارُ : اور علما عَنْ : سے قَوْلِهِمُ : ان کے کہنے کے الْاِثْمَ : گناہ وَاَكْلِهِمُ : اور ان کا کھانا السُّحْتَ : حرام لَبِئْسَ : برا ہے مَا : جو كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ : وہ کر رہے ہیں
بھلا ان کے مشائخ اور علماء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ بلاشبہ وہ بھی برا کرتے ہیں
لولا ینہہم الربانیون والاحبار عن قولہم الاثم واکلہم السحت مشائخ اور علماء ان کو گناہ کی باتیں کہنے (یعنی جھوٹ کہنے) اور حرام کھانے سے کیوں منع نہیں کرتے ‘ اس آیت میں مشائخ و علماء کو سخت زجر ہے کیونکہ ان کا فرض تو یہ تھا کہ دوسروں کو برائی سے روکیں بجائے روکنے کے وہ برائی کا حکم دیتے بلکہ خود بھی کرتے تھے ‘ بعض اہل تفسیر کے نزدیک الربانیون سے علماء نصاریٰ اور احباء سے علماء یہود مراد ہیں۔ لبئس ما کانوا یصنعون یقیناً ان کی یہ بری عادت ہے۔ یَعْمَلُوْنَسے یَصْنَعُوْنَمیں زیادہ زور اور بلاغت ہے ‘ کیونکہ صنع کا معنی ہے مشاق ہوجانے اور عادی بن جانے کے بعد کسی کام کا کرنا (گویا گناہ کرنے کی ان کی عادت اور مشق ہوگئی ہے) اس لئے یصنعونکے لفظ سے خواص کی مذمت فرمائی۔ صاحب مدارک نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا قرآن میں یہ شدید ترین آیت ہے کہ برائی سے بازداشت نہ کرنے والے کو مرتکب گناہ کی طرح وعید کی گئی ہے بلکہ برائی سے نہ روکنے والوں کو دھمکی زیادہ قوت کی حامل ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ بھلائی کو ترک کرنا گناہ سے زیادہ برا ہے کیونکہ معصیت میں تو نفس کے لئے لذت ہوتی ہے طبیعت کا جھکاؤ ہوتا ہے لیکن بھلائی کے ترک میں نہ لذت ہوتی ہے نہ میلان طبع اس لئے بھلائی کا ترک زیادہ مذمت کے قابل ہے۔
Top