Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 63
لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
لَوْ : کیوں لَا يَنْھٰىهُمُ : انہیں منع نہیں کرتے الرَّبّٰنِيُّوْنَ : اللہ والے (درویش) وَالْاَحْبَارُ : اور علما عَنْ : سے قَوْلِهِمُ : ان کے کہنے کے الْاِثْمَ : گناہ وَاَكْلِهِمُ : اور ان کا کھانا السُّحْتَ : حرام لَبِئْسَ : برا ہے مَا : جو كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ : وہ کر رہے ہیں
ان کے عالموں اور پیروں کو کیا ہوگیا ہے کہ انہیں (یعنی اپنی قوم کے لوگوں کو) جھوٹ بولنے ، حرام کھانے سے روکتے نہیں ؟ کیا ہی بری کارگزاری ہے جو یہ کر رہے ہیں
علماء اور فقہائے یہود کو سرزنش کہ تم ان بیماروں کا علاج کیوں نہیں کرتے : 171: ” ان کے عالموں اور پیروں کو کیا ہوگیا ہے کہ انہیں جھوٹ بولنے اور حرام مال کھانے سے روکتے کیوں نہیں ؟ “ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ مذہبی پیشواؤں کی کیا ذمہ داری ہے اور یہ بھی کہ جب کوئی قوم زوال پذیر ہوتی ہے تو اس کے علماء اور پیشوا اپنا کام ترک کردیتے ہیں۔ طبیب کا کام کیا ہے ؟ کہ بیماروں کی صحت یابی کے لئے ہر ممکن کوشش کرے حتی کہ بیمار صحت مند ہوجائیں اور اگر طبیب مریض کی طرف توجہ ہی نہ دے تو مرض بہر حال بڑھے گا لیکن طبیب سے پوچھ گچھ نہیں ہوگی ؟ ضرور ہوگی ۔ اس لئے کہ قرآن کریم نے علماء اور فقہائے یہود کو مخاطب کر کے یہ فرمایا کہ ” انہیں جھوٹ بولنے اور مال حرام کھانے سے تم نے کیوں نہیں روکا ؟ “ یہود کے علماء کی یہ حالت کہ انہوں نے قوم یہود کے لوگوں کو جھوٹ بولنے اور حرام کھانے سے منع نہیں کیا قابل مذمت ہے تو آج علمائے اسلام کی اکثریت خود جھوٹ بولے اور حرام مال کھائے ، نہیں بلکہ حرام مال ہی کو ” تبرک “ کے نام سے یاد کرے تو کیا ان پر گرفت نہ ہوگی اور وہ قابل مذمت نہ ہوں گے ؟ زیر نظر آیت پر ایک بار پھر نظر ڈالو کہ قرآن کریم میں یہود کے مشائخ اور علماء کو اس پر سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ ان لوگوں کو جو برے اعمال میں مبتلا ہوچکے ہیں ان کو کیوں نہیں روکتے جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اصل ذمہ داری ان دو طبقوں پر ہے ایک مشائخ یا فقہاء اور دوسرے احبار یعنی علماء اور خصوصاً وہ علماء ومشائخ جو حکومت کی طرف سے مامور باقتدار ہوں یا عوام نے خود ان کو اپنا پیشوا اور راہنما تسلیم کرلیا ہو۔ پھر جس قوم کے یہ دونوں طبقے خود بگڑ جائیں اس کی اصلاح کی کوئی ظاہری صورت باقی رہ جاتی ہے ؟ آج اگر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ قوم مسلم میں یہ دونوں طبقے قوم یہود کے ان دونوں طبقوں سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ قرآن کریم نے قوم یہود کے ان دونوں گروہوں کو مخاطب کر کے فرمایا ” کیا ہی برے کام ہیں جو وہ کر رہے ہیں۔ “ کہ اپنا فرض منصبی چھوڑ بیٹھے ہیں قوم کو ہلاکت کی طرف جاتا ہوا دیکھتے ہیں اور یہ ان کو نہیں روکتے اور اگر دوسروں کو برے اعمال کرتے دیکھ کر نہ روکنے پر اتنی سخت وعید ہے تو جو خود ہی جھوٹ بولنے لگیں اور رشوتیں کھانے لگیں اور اس سے بڑھ کر جھوٹ کو حق اور سچ اور رشیتوں کو رشینوں اور نذرانوں سے تعبیر کریں ان کا کیا حال ہوگا ؟ کیا نام بدلنے سے چیز بدل جاتی ہے ؟ رہی یہ بات کہ وہ روکتے کیوں نہیں تھے ؟ اس لئے کہ اگر وہ ان کو منع کریں گے تو یہ لوگ شیرینیاں اور نذرانے پیش نہیں کریں گے اور ہمیں جو کچھ مفت میں مل رہا ہے محنت کر کے کمانا پڑے گا جو اب بہت مشکل کام ہے۔ آسانی کو چھوڑ کر مشکل کی طرف جانا سراسر بےوقوفی ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اس طرح دراصل ان کا جرم اصل مجرموں اور بدکاروں کے جرم سے بھی بڑا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ علماء اور مشائخ کی ڈانٹ کے لئے اس سے زیادہ سخت آیت قرآن کریم میں نہیں ہے اور امام ضحاک سے بھی اسی طرح نقل کیا گیا ہے۔ (ابن جریر ، ابن کثیر) حضرت علی ؓ نے اپنے ایک خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا لوگو ! تم سے پہلے لوگ اس بناء پر ہلاک کردیئے گئے کہ وہ برائیاں کرتے تھے اور ان کے عالم اور مسائخ خاموش رہتے تھے ۔ جب یہ عادت ان میں پڑگئی تو اللہ نے انہیں قسم قسم کی سزائیں دیں پس تمہیں بھی چاہئے کہ بھلائی کا حکم کرو ، برائی سے روکو اس سے پہلے کہ تم پر بھی وہی عذاب آجائے جو تم سے پہلوں پر آیا۔ یقین جانو ! کہ بھلائی کا حکم اور برائی سے ممانعت نہ تو تمہاری روزی گھٹائے گی ، نہ تمہاری موت قریب کردے گی ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ ” جس قوم میں کوئی اللہ کی نافرمانی کرے اور وہ لوگ باوجود روکنے کی قدرت اور غلبے کے اسے نہ مٹائیں تو اللہ تعالیٰ سب پر اپنا عذاب نازل فرمائے گا۔ “ (مسند احمد) اور یہ عذاب ان کی موت سے پہلے ہی ان پر آن پڑے گا۔ (ابوداؤد ، ابن ماجہ)
Top