Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 10
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى وَ لِتَطْمَئِنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ١ۚ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَمَا : اور نہیں جَعَلَهُ : بنایا اسے اللّٰهُ : اللہ اِلَّا : مگر بُشْرٰي : خوشخبری وَلِتَطْمَئِنَّ : تاکہ مطمئن ہوں بِهٖ : اس سے قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل وَمَا : اور نہیں النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور یہ تو دی اللہ نے فقط خوش خبری اور تاکہ مطمئن ہوجائیں اس سے تمہارے دل اور مدد نہیں مگر اللہ کی طرف سے، بیشک اللہ زور آور ہے حکمت والا۔
چوتھی آیت میں بھی یہی مضمون ارشاد فرمایا (آیت) وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰي وَلِتَطْمَىِٕنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ صرف اس لئے کیا کہ تمہیں بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں۔
غزوہ بدر میں جو اللہ تعالیٰ کے فرشتے امداد کے لئے بیھجے گئے ان کی تعداد اس جگہ ایک ہزار مذکور ہے اور سورة آل عمران میں تین ہزار اور پانچ ہزار ذکر کی گئی ہے۔ اس کا سبب دراصل تین مخلتف وعدے ہیں جو مختلف حالات میں کئے گئے ہیں۔ پہلا وعدہ ایک ہزار فرشتوں کا ہوا جس کا سبب رسول کریم ﷺ کی دعا اور عام مسلمانوں کی فریاد تھی۔ دوسرا وعدہ جو تین ہزار فرشتوں کا سورة آل عمران میں پہلے مذکور ہے وہ اس وقت کیا گیا جب مسلمانوں کو یہ خبر ملی کہ قریشی لشکر کے لئے اور کمک آرہی ہے۔ روح المعانی میں ابن ابی شیبہ اور ابن المنذر وغیرہ سے بروایت شعبی منقول ہے کہ مسمانوں کو بدر کے دن یہ خبر پہنچی کہ کرز بن جابر محاربی مشرکین کی امداد کے لئے کمک لے کر آرہا ہے۔ اس خبر سے مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہوا۔ اس پر آل عمران کی (آیت) اَلَنْ يَّكْفِيَكُمْ اَنْ يُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُنْزَلِيْنَ ، نازل ہوئی جس میں تین ہزار فرشتے امداد کے لئے آسمان سے نازل کرنے کا وعدہ ذکر کیا گیا۔ اور تیسرا وعدہ پانچ ہزار کا اس شرط کے ساتھ مشروط تھا کہ اگر فریق مخالف نے یکبارگی حملہ کردیا تو پانچ ہزار فرشتوں کی مدد بھیج دی جائے گی وہ آل عمران کی آیت مذکورہ کے بعد کی آیت میں اس طرح مذکور ہے (آیت) بَلٰٓى ۙاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَيَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُسَوِّمِيْنَ ، یعنی اگر تم ثابت قدم رہے اور تقوی پر قائم رہے اور مقابل لشکر یکبارگی تم پر ٹوٹ پڑا تو تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزرا فرشتوں سے کرے گا جو خاص نشان یعنی خاص وردی میں ہوگے۔
بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس وعدہ میں تین شرطیں تھیں ایک ثابت قدمی دوسرے تقوی تیسرے مخالف فریق کا یکبارگی حملہ۔ پہلی دو شرطیں تو صحابہ کرام میں موجود تھیں اور اس میدان میں اول سے آخر تک ان میں کہیں فرق نہیں آیا مگر تیسری شرط یکبارگی ہلہ کی واقع نہیں ہوئی اس لئے پانچ ہزار ملائکہ کے لشکر کی نوبت نہیں آئی۔
اس لئے معاملہ ایک ہزار اور تین ہزار میں دائر رہا۔ جس میں یہ بھی احتمال ہے کہ تین ہزار سے مراد یہ ہو کہ ایک ہزار جو پہلے بھیجے گئے ان کے ساتھ مزید دو ہزار شامل کرکے تین ہزار کردیئے گئے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ تین ہزار اس پہلے ہزار کے علاوہ ہوں۔
یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ ان تین آیتوں میں ملائکہ کی تین جماعتوں کے بھیجنے کا وعدہ ہے اور ہر جماعت کے ساتھ ایک خاص صفت کا ذکر ہے۔ سورة انفال کی آیت جس میں ایک ہزار کا وعدہ ہے اس میں تو ان ملائکہ کی صفت میں مُرْدِفِيْنَ فرمایا ہے جس کے معنی ہیں پیچھے لگانے والے اس میں شاید اس طرف پہلے ہی اشارہ کردیا گیا کہ ان فرشتوں کے پیچھے دوسرے بھی آنے والے ہیں۔ اور سورة آل عمران کی پہلی آیت میں ملائکہ کی صفت مُنْزَلِيْنَ ارشاد فرمائی۔ یعنی یہ فرشتے آسمان سے اتارے جائیں گے اس میں اشارہ خاص اہمیت کی طرف ہے کہ زمین میں جو فرشتے پہلے سے موجود ہیں ان سے کام لینے کے بجائے خاص اہتمام کے ساتھ یہ فرشتے آسمان سے اسی کام کے لئے بھیجے جائیں گے اور آل عمران کی دوسری آیت جس میں پانچ ہزار کا ذکر ہے اس میں ملائکہ کی صفت مُسَوِّمِيْنَ ارشاد فرمائی ہے کہ وہ ایک خاص لباس اور علامت کے ساتھ ہوں گے۔ جیسا کہ روایات حدیث میں ہے کہ بدر میں نازل ہونے والے فرشتوں کے عمامے سفید اور غزوہ حنین میں مدد کے لئے آنے والے فرشتوں کے عمامے سرخ تھے۔
آخرت آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَمَا النَّصْرُ اِلَّامِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ، اس میں مسلمانوں کو تنبیہ فرمادی کہ جو مدد بھی کہیں سے ملتی ہے خواہ ظاہری صورت سے ہو یا مخفی انداز سے سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے اسی کے قبضہ میں ہے فرشتوں کی مدد بھی اسی کے تابع فرمان ہے اس لئے تمہاری نظر صرف اسی ذات وحدہ لا شریک لہ کی طرف رہنی چاہئے کیونکہ وہ قدرت والا حکمت والا ہے۔
Top