Fi-Zilal-al-Quran - Al-Anfaal : 10
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى وَ لِتَطْمَئِنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ١ۚ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَمَا : اور نہیں جَعَلَهُ : بنایا اسے اللّٰهُ : اللہ اِلَّا : مگر بُشْرٰي : خوشخبری وَلِتَطْمَئِنَّ : تاکہ مطمئن ہوں بِهٖ : اس سے قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل وَمَا : اور نہیں النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں ، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے یقیناً اللہ زبردست اور دانا ہے
مسلمان اللہ کے دربار میں زاری کر رہے تھے تو اللہ نے ان کو جواب دیا کہ میں ایک ہزار فرشتوں کی امداد تمہارے لیے بھیج رہا ہوں جو لگاتار نازل ہوتے رہیں گے۔ اس اعلان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ بہت عظیم تھا ، اور اللہ کے نزدیک اقامت دین کی بہت اہمیت تھی ، لیکن اللہ تعالیٰ یہاں اس بات کی وضاحت بار بار فرماتے ہیں کہ دنیا میں اسباب کی اس قدر اہمیت نہیں کہ ان سے تخلف ممکن نہ ہو۔ اصل اختیار اللہ کی مشیت کا ہوتا ہے۔ لہذا اسباب کے معاملے میں مومن کو اپنا ذہن صاف رکھنا چاہیے۔ اللہ کی جانب سے مدد کی قبولیت اور پھر اس کی اطلاع محض ایک خوشخبری تھی جس کے ذریعے مومنین کو اطمینان دلانا مقصود تھا۔ رہی نصرت تو وہ اللہ کی جانب سے تھی۔ یہ ہے وہ حقیقت جو یہاں قرآن مومنین کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہے تاکہ وہ کلی تکیہ اسباب پر نہ کریں۔ مسلمانوں کا یہ فرض تھا کہ وہ اپنی پوری قوت کو اس معرکے میں جھونک دیں اور کچھ بھی باقی نہ رکھیں۔ ابتدائی طور پر بعض لوگوں کے اندر جو تزلزل پیدا ہوگیا تھا اس پر قابو پا لیں۔ کیونکہ اس وقت وہ واقعی اور حقیقی خطرے سے دوچار تھے۔ وہ اللہ کا حکم بجا لاتے ہوئے اگے بڑھیں اور اللہ کی نصرت پر یقین رکھیں۔ بس یہی ان کے لیے کافی تھا تاکہ وہ اپنے حصے کا کردار اچھی طرح ادا کرلی۔ آگے پھر قدرت الہیہ کا کام آتا ہے اور قدرت الہی اپنے معاملات کی تدبیر خود کرتی ہے۔ اس کے علاوہ جو اقدامات ہوئے اور اطلاعات دی گئیں وہ محض مسلمانوں کے اطمینان کے لیے ہیں۔ ان کے قدموں کو ثابت کرنے کے لیے تھیں کیونکہ وہ ایک حقیقی خطرے سے دوچار تھے۔ جماعت مسلمہ کے لیے یہ بات کافی تھی کہ اسے یہ اطمینان ہو کہ اللہ کے لشکر اس کے ساتھ ہیں اور یہ کہ نصرت ان کے لیے مقدر ہے۔ کیونک نصر اللہ کی جانب سے ہوتی ہے اور اللہ ان کے ساتھ ہے ، وہ عزیز ہے اور وہی غالب ہے ، وہی حکیم ہے اور وہ ہر بات کو اپنے حقیقی مقام پر رکھتا ہے۔
Top