Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 10
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى وَ لِتَطْمَئِنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ١ۚ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَمَا : اور نہیں جَعَلَهُ : بنایا اسے اللّٰهُ : اللہ اِلَّا : مگر بُشْرٰي : خوشخبری وَلِتَطْمَئِنَّ : تاکہ مطمئن ہوں بِهٖ : اس سے قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل وَمَا : اور نہیں النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور اس مدد کو خدا نے محض بشارت بنایا تھا کہ تمہارے دل اس سے اطمینان حاصل کریں۔ اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے بیشک خدا غالب حکمت والا ہے۔
10۔ بدر کی لڑائی میں مسلمان بہت تھوڑے تھے اور کافر بہت تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اس طرح کی مدد کی اور کئی طرح کے اسباب دل جمعی کے ان کے لئے مہیا کئے آسمان سے اول ایک ہزار پھر تین ہزار پھر پانچ ہزار تک فرشتے ان کی مدد کو بھیجے کافروں نے پہلے سے بدر پر پہنچ کر وہاں کے پانی پر قبضہ کرلیا تھا اور شیطان نے مسلمانوں کی پیاس اور نہانے اور وضو سے تنگ پا کر ان کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا تھا کہ اگر یہ دین حق ہوتا اور تم سچے ہوتے تو کیا تم کو ایسی مصیبت میں ڈالتا کہ پانی تک کو ترس رہے ہو شیطان کا یہ وسوسہ دفع کرنے کے لئے فورا اللہ تعالیٰ نے مینہ برسایا اور جگہ جگہ گڑھوں میں مسلمانوں کی ضرورت کے موافق پانی جمع ہوگیا ایک طرح کی تھکان رات بھر کے جاگنے سے جو مسلمانوں پر چھا گئی تھی دشمن کے مقابلہ سے پہلے ان کو ایک طرح کی اونگھ میں کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ تھکان رفع کردی ان کے دشمنوں کے دل میں رعب اور ان کے دل میں دلیری پیدا کردی مقابلہ کے وقت ان کی نظروں میں دشمنوں کی تعداد کم کردی ان سب اسباب کے بعد اس آیت میں فرمایا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہارا دل خوش کرنے اور تمہاری راحت کے لئے کردیا ہے ان اسباب پر فتح منحصر نہیں فتح اللہ تعالیٰ کی مرضی پر ہے جب وہ چاہتا ہے فتح جب ہی ہوتی ہے حاصل یہ ہے کہ اس عالم اسباب میں سبب تو ہر ایک چیز کا اللہ نے لگایا ہے مگر اسی سبب میں وہ تاثیر پیدا نہ کرے تو کچھ نہیں ہوتا یہی روزمرہ کی تاثیر کی دوائیں جب آدمی کا آخری وقت آجاتا ہے اور اللہ کی مرضی ان دواؤں کی اثر کی نہیں ہوتی تو ساری دوائیں بالکل بےاثر ہوجاتی ہیں غرض آدمی کو چاہئے کہ اسباب ظاہری پر تکیہ کر کے اللہ کا بھروس ہو کتاب کے جنت میں جانے کا ذکر ہے اور یہ بھی ہے کہ جن کا یہ ذکر ہے وہ ہر باب میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والے ہونگے۔ آیت میں اللہ پر بھروسہ کرنے کا جو ذکر ہے اس بھروسہ کے اجر کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ بعضے صوفیہ نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ ظاہری اسباب کو بالکل چھوڑ دیا جاوے جیسے مثلا شیر سامنے آجاوے تو اللہ پر بھروسہ کر کے اپنی طرف سے اس شیر سے بچنے کی کچھ کوشش نہ کی جاوے لیکن جمہور علماء نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ آدمی دل سے ہر باب میں اللہ پر بھروسہ کرے اور ہاتھ پاؤں سے ظاہری اسباب کو کام میں لاوے جس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر اسباب کو کام میں لاکر آدمی دل میں یہ اعتقاد رکھے کہ ان ظاہری اسباب میں اللہ تعالیٰ کچھ تاثیر پیدا کرے گا تو ہوگی ورنہ مستقل طور پر ان ظاہری اسباب کو نہ تقدیر الہی میں کچھ دخل ہے نہ اصلی طور پر ان پر بھروسہ کرنے کے حکم سے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنیکا وہی مطلب صحیح قرار پاتا ہے جو جمہور علماء نے بیان کیا ہے۔ اس سورة کی آیتوں کے سوا اور بھی بہت سی آیتیں اور صحیح حدیثیں ایسی ہیں جن سے جمہور علماء کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے۔ ان اللہ عزیز حکیم کا یہ مطلب ہے کہ ظاہری اسباب میں تاثیر کا پیدا کرنا اور نہ کرنا یہ سب اس کی قدرت اور حکمت کے کار خانے ہیں بدر کی لڑائی میں قدرت اور حکمت کے ایک کار خانہ کا ظہور تھا اور احد کی لڑائی میں باوجود زیادہ ہونے اسباب ظاہری کے قدرت اور حکمت کے دوسرے کار خانہ کا ظہور ہوا :۔
Top