Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 10
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى وَ لِتَطْمَئِنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ١ۚ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَمَا : اور نہیں جَعَلَهُ : بنایا اسے اللّٰهُ : اللہ اِلَّا : مگر بُشْرٰي : خوشخبری وَلِتَطْمَئِنَّ : تاکہ مطمئن ہوں بِهٖ : اس سے قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل وَمَا : اور نہیں النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
(اور نہیں کیا اللہ نے ( فرشتوں کی خبر دینے کو) مگر خوشخبری تاکہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور مدد تو اللہ ہی کے پاس سے آتی ہے، بیشک اللہ زور آورحکمت والا ہے )
وَمَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشْرٰی وَلِتَطْمَئِنَّ بِہٖ قُلُوْبُکُمْ ج وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ ع (الانفال : 10) (اور نہیں کیا اللہ نے ( فرشتوں کی خبر دینے کو) مگر خوشخبری تاکہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور مدد تو اللہ ہی کے پاس سے آتی ہے، بیشک اللہ زور آورحکمت والا ہے ) اللہ تعالیٰ کی نصرت اسباب کے پردے میں اس آیت کریمہ میں دو باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ایک تو یہ بات کہ کسی شخص کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی مدد کے لیے فرشتوں یا اسباب کا محتاج ہے۔ کائنات کی ہر مخلوق اپنی قوتوں اور اپنے خواص کے لیے اللہ کی محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی مخلوق کا محتاج نہیں۔ فرشتے اگر کسی کی مدد کرتے ہیں تو اللہ کے حکم اس کے اذن اور اس کی دی ہوئی طاقت سے کرتے ہیں۔ اپنے طور سے وہ کسی کی مدد کرنے پر قادر نہیں۔ البتہ ! اللہ کی ایک سنت ہے جس کے مطابق دنیا کا نظام چل رہا ہے کہ وہ جب بھی کسی کی مدد کرتا ہے تو اسباب کے پردے میں کرتا ہے۔ انسانی نظر چونکہ اسباب کو دیکھتی ہے اور اسباب ہی سے متأثر ہوتی ہے اس لیے جب وہ اسباب کو حرکت میں دیکھتی ہے تو اسے ایک گونہ سکون اور حوصلہ ملتا ہے۔ اس لیے پروردگار نے فرشتوں کے بھیجنے کا وعدہ فرمایا لیکن ساتھ یہ بتانا ضروری سمجھا کہ تم کہیں اپنے آپ کو فرشتوں کا محتاج نہ سمجھ لینا اور نہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہونا کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کا محتاج ہے۔ جب بھی کسی کی مدد ہوتی ہے تو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ البتہ ! نگاہیں اسباب کے پردے میں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔ روشنی پاور ہائوس سے آتی ہے لیکن نگاہیں ٹیوب اور بلب کو دیکھتی ہیں۔ لیکن بجلی کے نظام کو جاننے والا جانتا ہے کہ بجلی کہاں سے آرہی ہے۔ ایک مسلمان کو بھی اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے کہ اس کا سررشتہ کس کے ہاتھ میں ہے اور اس کا ہاتھ کس کے سامنے پھیلنا چاہیے۔ دوسری بات جس کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ بدر میں پروردگار نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے فرشتوں کی فوج بھیجی لیکن اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اللہ کی نصرت کا یہ وعدہ صرف جنگ بدر کے ساتھ مخصوص تھا یا اس وقت کے مسلمانوں کے ساتھ خاص تھا کیونکہ ان میں اللہ کے آخری رسول موجود تھے بلکہ مسلمانوں کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ جب بھی تقویٰ اور صبر کی تصویر بن کر صرف اللہ کی رضا کے حصول اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے مسلمان دشمن سے نبرد آزما ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد ضرور اترے گی۔ ضروری نہیں کہ فرشتوں کی شکل میں مدداترے کسی بھی صورت میں مدد آسکتی ہے۔ وہ چاہے تو پرندوں کو فرشتوں کی طاقت دے دے، چاہے تو سمندر کی موجوں کو بےلگام کردے، وہ چاہے تو آسمان کے دروازے بارشوں کے لیے کھول دے، لیکن عموماً وہ اپنے بندوں کی مدد کے لیے فرشتے اتارتا ہے۔ اس لیے ہر کٹھن وقت اور خطرناک حق و باطل کے معرکے میں مسلمانوں کو یقین رکھنا چاہیے کہ اگر انھوں نے کوئی کمزوری نہ دکھائی اور تقویٰ اور صبر کو ملحوظ رکھا اور وہی فضا پیدا کردی جو جنگ بدر میں تھی اور اللہ کے سامنے گڑگڑا کر اس سے مدد مانگی تو کوئی وجہ نہیں کہ مدد کے لیے فرشتے نازل نہ ہوں۔ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (مدد جب بھی آتی ہے اللہ کی طرف سے آتی ہے بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔ ) مسلمانوں کے عقیدے کی بنیاد ہی یہ ہے کہ مدد جب بھی آتی ہے اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ اس لیے بھروسہ اللہ پر ہونا چاہیے دست سوال اسی کے سامنے دراز ہونا چاہیے، امیدیں اسی سے باندھنی چاہئیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ وہی ایک ذات ہے جو سب سے زور آور اور سب پر غالب ہے۔ جب وہ کسی کی مدد کرنا چاہے تو کوئی اس کا ہاتھ پکڑ نے والا نہیں، کوئی راستے میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرسکتا۔ البتہ ! یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ مسلمان اللہ سے مدد طلب کرے لیکن ادھر سے مدد نہ آئے اور بظاہر یہ سمجھا جائے کہ اللہ نے اپنے بندوں کو اپنی مدد سے محروم کردیا ہے۔ اگر کبھی ایسا ہو تو مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ جس طرح ” عزیز “ ہے اسی طرح ” حکیم “ بھی ہے۔ اگر اس کی حکمت کا تقاضایہ ہے کہ اہل ایمان کو تربیت کے لیے مصائب سے گزارا جائے تو وہ مصائب میں مبتلا کردیتا ہے۔ لیکن اس سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے محروم کردیا ہے بلکہ یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اس میں بھی اہل ایمان کے لیے کوئی مصلحت ہے۔
Top