Mutaliya-e-Quran - Al-Anfaal : 10
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى وَ لِتَطْمَئِنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ١ۚ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَمَا : اور نہیں جَعَلَهُ : بنایا اسے اللّٰهُ : اللہ اِلَّا : مگر بُشْرٰي : خوشخبری وَلِتَطْمَئِنَّ : تاکہ مطمئن ہوں بِهٖ : اس سے قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل وَمَا : اور نہیں النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقیناً اللہ زبردست اور دانا ہے
[ وَمَا جَعَلَهُ : اور نہیں بنایا اس کو ] [ اللّٰهُ : اللہ نے ] [ اِلَّا : مگر ] [ بُشْرٰي : خوشخبری ] [ وَلِتَطْمَىِٕنَّ : اور تاکہ مطمئن ہوں ] [ بِهٖ : اس سے ] [ قُلُوْبُكُمْ ۭ : تمہارے دل ] [ وَمَا النَّصْرُ : اور نصرت نہیں ہے ] [ اِلَّا : مگر ] [ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے پاس سے ] [ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ ] [ عَزِيْزٌ: بالا دست ہے ] [ حَكِيْمٌ: حکمت والا ہے ] نوٹ ۔ 1: یہ آیات ان روایات کی تردید کررہی ہیں جو جنگ بدر کے سلسلہ میں عموما کتب سیرت ومغازی میں نقل کی جاتی ہیں، یعنی یہ کہ ابتداء نبی ﷺ اور مومنین قافلے کو لوٹنے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے تھے ۔ پھر چند منزل آگے جاکر جب معلوم ہوا کہ قریش کا لشکر قافلہ کی حفاظت کے لیے آرہا ہے ۔ تب یہ مشورہ کیا گیا کہ قافلے پر حملہ کیا جائے یا لشکر کا مقابلہ ۔ اس کے برعکس قرآن یہ بتارہا ہے کہ جس وقت نبی کریم ﷺ اپنے گھر سے نکلے تھے اسی وقت یہ امر حق آپ کے پیش نظر تھا کہ قریش کے لشکر سے فیصلہ کن مقابلہ کیا جائے ۔ اور یہ مشاورت بھی اسی وقت ہوئی تھی کہ قافلہ اور لشکر میں سے کس کو حملہ کے لیے منتخب کیا جائے اور باوجود اس کے کہ مومنین پر یہ حقیقت واضح ہوچکی تھی کہ لشکر ہی سے نمٹنا ضروری ہے، پھر بھی ان میں سے ایک گروہ اس سے بچنے کے لیے حجت کرتا رہا ۔ اور بالآخر جب آخری رائے یہ قرار پاگئی کہ لشکر ہی کی طرف چلنا چاہیے تو یہ گروہ مدینہ سے یہ خیال کرتا ہوا چلا کہ ہم سیدھے موت کے منہ میں ہانکے جارہے ہیں ۔ (تفہیم القرآن )
Top