Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 119
وَّ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَ ظَنُّوْۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَیْهِ١ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۠   ۧ
وَّعَلَي : اور پر الثَّلٰثَةِ : وہ تین الَّذِيْنَ : وہ جو خُلِّفُوْا : پیچھے رکھا گیا حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب ضَاقَتْ : تنگ ہوگئی عَلَيْهِمُ : ان پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : باوجود کشادگی وَضَاقَتْ : اور وہ تنگ ہوگئی عَلَيْهِمْ : ان پر اَنْفُسُھُمْ : ان کی جانیں وَظَنُّوْٓا : اور انہوں نے جان لیا اَنْ : کہ لَّا مَلْجَاَ : نہیں پناہ مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ اِلَّآ : مگر اِلَيْهِ : اس کی طرف ثُمَّ : پھر تَابَ عَلَيْهِمْ : وہ متوجہ ہوا ان پر لِيَتُوْبُوْا : تاکہ وہ توبہ کریں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ ھُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنیوالا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
اور ان تین شخصوں پر جن کو پیچھے رکھا تھا، یہاں تک کہ جب تنگ ہوگئی ان پر زمین باوجود کشادہ ہونے کے اور تنگ ہوگئیں ان پر ان کی جانیں اور سمجھ گئے کہ کہیں پناہ نہیں اللہ سے مگر اسی کی طرف، پھر مہربان ہوا ان پر تاکہ وہ پھر آئیں، بیشک اللہ ہی ہے مہربان رحم والا،
(آیت) وَّعَلَي الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا، اس میں خلفوا کے لفظی معنی یہ ہیں کہ جو پیچھے چھوڑ دیئے گئے مراد یہ ہے کہ جن کی توبہ کا معاملہ مؤ خر کیا گیا، یہ تین حضرات، حضرت کعب بن مالک شاعر، اور مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ ہیں، تینوں انصاری بزرگ تھے، جو اس سے پہلے بیعت عقبہ اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دوسرے غزوات میں شریک رہ چکے تھے، مگر اس وقت اتفاقی طور سے اس لغزش میں مبتلا ہوگئے، اور منافقین جو اس جہاد میں اپنے نفاق کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے تھے انہوں نے بھی ان کو ایسے ہی مشورے دیئے جس سے ان کی ہمت ٹوٹ گئی، مگر جب رسول اللہ ﷺ اس جہاد سے واپس آئے تو ان سب منافقین نے حاضر ہو کر جھوٹے اعذار پیش کرکے اور جھوٹی قسمیں کھا کر رسول اللہ ﷺ کو راضی کرنا چاہا، آنحضرت ﷺ نے ان کی باطنی حالت کو اللہ کے سپرد کیا، اور ظاہری قسموں کو قبول کرلیا، یہ لوگ آرام سے رہنے لگے، کچھ لوگوں نے ان تینوں انصاری بزرگوں کو بھی یہی مشورہ دیا کہ تم بھی جھوٹے عذر کر کے اپنی صفائی پیش کردو، مگر ان کے دلوں نے ملامت کی کہ ایک گناہ تو جہاد سے تخلف کا کرچکے ہیں، اب دوسرا گناہ حضور ﷺ کے سامنے جھوٹ بولنے کا کریں، اس لئے صاف صاف اپنے قصور کا اعتراف کرلیا، جس کی سزا میں ان سے مقاطعہ سلام و کلام جاری کیا گیا، انجام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان سب کی حقیقت کھول دی، جھوٹی قسمیں کھا کر عذر کرنے والوں کا پردہ فاش کردیا، جس کا ذکر اور ان کے انجام بد کا حال اس سے پہلی کئی آیات میں (آیت) يَعْتَذِرُوْنَ اِلَيْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَيْهِمْ سے عَلَيْهِمْ دَاۗىِٕرَةُ السَّوْءِ تک بیان ہوا ہے، اور ان تین بزرگوں نے جو سچ بولا اور اعتراف کیا ان کی توبہ اس آیت میں نازل ہوئی، اور پچاس دن رسول اللہ ﷺ کے اعراض اور صحابہ کرام کے مقاطعہ سلام و کلام کی انتہائی سخت مصیبت جھیلنے کے بعد بڑی سرخروئی اور مبارکبادوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ اور سب مسلمانوں میں مقبول ہوئے۔
ان تینوں انصاری بزرگوں کے واقعہ کی تفصیل احایث صحیحہ سے
صحیحین بخاری و سلم اور اکثر کتب حدیث میں اس واقعہ کے متعلق حضرت کعب بن مالک کی ایک طویل حدیث لکھی گئی ہے، جو بہت سے فوائد اور مسائل اور حقائق پر مشتمل ہے، اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اس کا پورا ترجمہ یہاں نقل کردیا جائے، ان تین بزرگوں میں سے ایک کعب بن مالک ؓ تھے انہوں نے اپنے واقعہ کی تفصیل اس طرح بتلائی ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے جتنے غزوات میں شرکت کی میں ان سب میں بجز غزوہ تبوک کے آپ کے ساتھ شریک رہا، البتہ غزوہ بدر کا واقعہ چونکہ اچانک پیش آیا اور رسول اللہ ﷺ نے سب کو اس میں شریک ہونے کا حکم بھی نہیں دیا تھا، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی عتاب بھی نہیں فرمایا تھا اس میں بھی شریک نہ ہوسکا تھا، اور میں لیلتہ العقبہ کی بیعت میں بھی حاضر تھا جس میں ہم نے اسلام کی حمایت و حفاظت کا معاہدہ کیا تھا، اور مجھے یہ بیعت عقبہ کی حاضری غزوہ بدر کی حاضری سے بھی زیادہ محبوب ہے، اگرچہ غزوہ بدر لوگوں میں زیادہ مشہور ہے، اور میرا واقعہ غزوہ تبوک میں غیر حاضری کا یہ ہے کہ میں کسی وقت بھی اس وقت سے زیادہ خوش حال اور مالدار نہ تھا۔ بخدا میرے پاس کبھی اس سے پہلے دو سواریاں جمع نہیں ہوئی تھیں۔ جو اس وقت موجود تھیں۔
اور رسول اللہ ﷺ کی عادت شریفہ غزوات کے معاملہ میں یہ تھی کہ مدینہ سے نکلنے کے وقت اپنے ارادے کے اخفا کے لئے ایسا کرتے تھے کہ جس سمت میں جا کر جہاد کرنا ہو تو مدینہ سے اس کے خلاف سمت کو نکلنے تھے، تاکہ منافقین مخبری کرکے فریق مقابل کو آگاہ نہ کردیں، اور فرمایا کرتے تھے کہ جنگ میں (اس طرح کا) خداع (دھوکہ) جائز ہے۔
یہان تک کہ یہ غزوہ تبوک کا واقعہ پیش آیا، (یہ جہاد کئی وجہ سے ممتاز تھا) آپ نے سخت گرمی اور تنگدستی کی حالت میں اس جہاد کا قصد فرمایا، اور سفر بھی بڑی دور کا تھا، مقابلہ پر دشمن کی قوت اور تعداد بہت زیادہ تھی، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس جہاد کا کھل کر اعلان کردیا تاکہ مسلمان اس جہاد کے لئے پوری تیاری کرسکیں۔
اس جہاد میں شریک ہونے والوں کی تعداد صحیح مسلم کی روایت کے مطابق دس ہزار سے زائد تھی، اور حاکم کی روایت حضرت معاذ سے یہ ہے کہ ہم اس جہاد میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو ہماری تعداد تیس ہزار سے زائد تھی۔
اور اس جہاد میں نکلنے والوں کی کوئی فہرست نہیں لکھی گئی تھی اس لئے جو لوگ جہاد میں جانا نہیں چاہتے تھے ان کو یہ موقع مل گیا کہ ہم نہ گئے تو کسی کو خبر بھی نہ ہوگی، جس وقت رسول اللہ ﷺ اس جہاد کے لئے نکلے تو وہ وقت تھا کہ کہجوریں پک رہی تھیں، باغات والے ان میں مشغول تھے، اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ اور عام مسلمانوں نے سفر کی تیاری شروع کردی، اور جمعرات کے روز آپ نے اس سفر کا آغاز کیا، اور سفر کے لئے آنحضرت ﷺ کو جمعرات کا دن پسند تھا، خواہ سفر جہاد کا ہو یا کسی دوسرے مقصد کا۔
میرا حال یہ تھا کہ میں روز صبح کو ارادہ کرتا کہ جہاد کی تیاری کروں مگر بغیر کسی تیاری کے واپس آجاتا، میں دل میں کہتا تھا کہ میں جہاد پر قادر ہوں مجھے نکلنا چاہئے، مگر یوں ہی امروز و فردا میں میرا ارادہ ٹلتا رہا، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ اور عام مسلمان جہاد کے لئے روانہ ہوگئے، پھر بھی میرے دل میں یہ آتا رہا کہ میں بھی روانہ ہوجاؤں اور کہیں راستہ میں مل جاؤں اور کاش ! کہ میں ایسا کرلیتا، مگر یہ کام (افسوس ہے کہ) نہ ہوسکا۔
رسول اللہ ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد جب میں مدینہ میں کہیں جاتا تو یہ بات مجھے غمگین کرتی تھی کہ اس وقت پورے مدینہ میں یا تو وہ لوگ نظر پڑتے تھے جو نفاق میں ڈوبے ہوئے تھے، یا پھر ایسے بیمار معذور جو قطعاً سفر کے قابل نہ تھے دوسری طرف پورے راستہ میں رسول اللہ ﷺ کو میرا خیال کہیں نہیں آیا یہاں تک کہ تبوک پہنچ گئے اس وقت آپ نے ایک مجلس میں ذکر کیا کہ کعب بن مالک کو کیا ہوا وہ کہاں ہیں) ؟
بنو سلمہ کے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ان کو جہاد سے ان کے عمدہ لباس اور اس پر نظر کرتے رہنے نے روکا ہے، حضرت معاذ بن جبل نے عرض کیا کہ تم نے یہ بری بات کہی ہے، یا رسول اللہ بخدا میں نے ان میں خیر کے سوا کچھ نہیں پایا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے۔
حضرت کعب کا بیان ہے کہ جب مجھے یہ خبر ملی کہ رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لا رہے ہیں تو مجھے بڑی فکر ہوئی اور قریب تھا کہ میں اپنی غیر حاضری کا کوئی عذر گھبرا کر تیار کرلیتا اور ایسی باتیں پیش کردیتا جس کے ذریعہ میں رسول اللہ ﷺ کی ناراضی سے نکل جاتا اور اس کے لئے اپنے اہل اور دوستوں سے بھی مدد لے لیتا (میرے دل میں یہ خیالات و وساوس گھومتے رہے) یہاں تک کہ جب یہ خبر ملی کہ حضور تشریف لے آئے ہیں تو خیالات فاسدہ میرے دل سے مٹ گئے اور میں نے سمجھ لیا کہ میں آپ کی ناراضی سے کسی ایسی بنیاد پر نہیں نکل سکتا جس میں جھوٹ ہو اس لئے میں نے بالکل سچ بولنے کا عزم کرلیا مجھے صرف سچ ہی نجات دلا سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لائے تو (حسب عادت) چاشت کے وقت یعنی صبح کو آفتاب کچھ بلند ہونے کے وقت مدینہ میں داخل ہوئے اور عادت شریفہ یہی تھی کہ سفر سے واپسی کا عموماً یہی وقت ہوا کرتا تھا، اور عادت یہ تھی کہ پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے، دو رکعتیں پڑھتے، پھر حضرت فاطمہ کے پاس جاتے، اس کے بعد ازواج مطہرات سے ملتے تھے۔
اسی عادت کے مطابق آپ اول مسجد میں تشریف لے گئے دو رکعت ادا کی، پھر مسجد میں بیٹھ گئے جب لوگوں نے یہ دیکھا تو غزوہ تبوک میں نہ جانے والے منافقین جن کی تعداد اسی (80) سے کچھ اوپر تھی خدمت میں حاضر ہو کر جھوٹے عذر پیش کرکے اس پر جھوٹی قسمیں کھانے لگے، رسول اللہ ﷺ نے ان کے ظاہری قول قرار اور قسموں کو قبول کرلیا، اور ان کو بیعت کرلیا، ان کے لئے دعا مغفرت فرمائی اور ان کے باطنی حالات کو اللہ کے سپرد کیا۔
اسی حال میں میں بھی حاضر خدمت ہوگیا ‘ اور چلتے چلتے سامنے جا کر بیٹھ گیا ‘ جب میں نے سلام کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ایسا تبسم فرمایا جیسے ناراض آدمی کبھی کیا کرتا ہے اور بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پنا رخ پھیرلیا ‘ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ مجھ سے چہرہ مبارک کیوں پھیر تے ہیں ‘ خدا کی قسم ! میں نے نفاق نہیں کیا ‘ نہ دین کے معاملہ میں کسی شبہ وشک میں مبتلا ہوا ‘ نہ اس میں کوئی تبدیلی کی آپ نے فرمایا کہ پھر جہاد میں کیوں نہیں گئے ؟ کیا تم نے سواری نہیں خرید لی تھی ؟
میں نے عرض کیا بیشک یا رسول اللہ اگر میں آپ کے سوا دنیا کے کسی دوسرے آدمی کے سامنے بیٹھتا تو مجھ یقین ہے کہ میں کوئی عذر گھڑ کر اس کی نارضی سے بچ جاتا ‘ کیونکہ مجھے جدال اور بات بنانے میں مہا رت حاصل ہے ‘ لیکن قسم ہے اللہ کی کہ میں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر میں نے آپ سے کوئی جھوٹی بات کہی جس سے آپ وقتی طور پر راضی ہوجائیں تو کچھ دور نہیں کہ اللہ تعالیٰ حقیقت حال آپ پر کھول کر مجھ سے ناراض کردیں گے، اور اگر میں نے سچی بات بتلا دی جس سے بالفعل آپ مجھ پر ناراض ہوں تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرما دیں گے، صحیح بات یہ ہے کہ جہاد سے غائب رہنے میں میرا کوئی عذر نہیں تھا، میں کسی وقت بھی مالی اور جسمانی طور پر اتنا قوی اور پیسے والا نہیں ہوا تھا جتنا اس وقت تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص نے تو سچ بولا ہے، پھر فرمایا کہ اچھا جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے متعلق کوئی فیصلہ فرما دیں، میں یہاں سے اٹھ کر چلا تو بنی سلمہ کے چند آدمی میرے پیچھے لگے، اور کہنے لگے کہ اس سے پہلے تو ہمارے علم میں تم نے کوئی گناہ نہیں کیا یہ تم نے کیا بےوقوفی کی کہ اس وقت کوئی عذر پیش کردیتے جیسا دوسرے متخلفین نے پیش کیا، اور تمہارے گناہ کی معافی کے لئے رسول اللہ ﷺ کا استغفار کرنا کافی ہوجاتا، بخدا یہ لوگ مجھے بار بار ملامت کرتے رہے یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خیال آگیا کہ میں لوٹ جاؤں، اور پھر جا کر عرض کروں کہ میں نے جو بات پہلے کہی تھی وہ غلط تھی، میرا عذر صحیح موجود تھا۔
مگر پھر میں نے دل میں کہا کہ میں ایک گناہ کے دو گناہ نہ بناؤں ایک گناہ تو تخلف کا سرزد ہوچکا ہے دوسرا گناہ جھوٹ بولنے کا کر گذروں، پھر میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ متخلفین میں کوئی اور بھی میرے ساتھ ہے جس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہو، ان لوگوں نے بتلایا کہ دو آدمی اور ہیں جنہوں نے تمہاری طرح اقرار جرم کرلیا، اور ان کو بھی وہی جواب دیا گیا جو تمہیں کہا گیا ہے، (کہ اللہ کے فیصلہ کا انتظار کرو) میں نے پوچھا کہ وہ دو کون ہیں ؟ انہوں نے بتلایا کہ ایک مرارہ ابن ربیع العمری دوسرے ہلال بن امیہ واقفی ہیں۔
ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ ان میں سے پہلے (یعنی مرارہ) کے تخلف کا تو سبب یہ ہوا کہ ان کا ایک باغ تھا جس کا پھل اس وقت پک رہا تھا، تو انہوں نے اپنے دل میں کہا کہ تم نے اس سے پہلے سے غزوات میں حصہ لیا ہے، اگر اس سال جہاد میں نہ جاؤ تو کیا جرم ہے، اس کے بعد جب انھیں اپنے گناہ پر تنبہ ہوا تو انہوں نے اللہ سے عہد کرلیا کر یہ باغ میں نے اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔
اور دوسرے بزرگ حضرت ہلال بن امیہ کا یہ واقعہ ہوا کہ ان کے اہل و عیال عرصہ سے متفرق تھے، اس موقع پر سب جمع ہوگئے تو یہ خیال کیا کہ اس سال میں جہاد میں نہ جاؤں اپنے اہل و عیال میں بسر کروں، ان کو بھی جب اپنے گناہ کا خیال آیا تو انہوں نے یہ عہد کیا کہ اب میں اپنے اہل و عیال سے علحدگی اختیار کرلوں گا۔
کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ ان لوگوں نے ایسے دو بزرگوں کا ذکر کیا جو غزوہ بدر کے مجاہدین میں سے ہیں، تو میں نے کہا کہ بس میرے لئے انہی دونوں بزرگوں کا عمل قابل تقلید ہے، یہ کہہ کر میں اپنے گھر چلا گیا۔
ادھر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو ہم تینوں کے ساتھ سلام کلام کرنے سے منع فرمایا، اس وقت ہم تو سب مسلمانوں سے بدستور محبت کرتے تھے مگر ان سب کا رخ ہم سے پھر گیا تھا۔
ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ اب ہمارا حال یہ ہوگیا کہ ہم لوگوں کے پاس جاتے تو کوئی ہم سے کلام نہ کرتا نہ سلام کرتا نہ سلام کا جواب دیتا۔
مسند عبد الرزاق میں ہے کہ اس وقت ہماری دنیا بالکل بدل گئی ایسا معلوم ہونے لگا کہ نہ وہ لوگ ہیں جو پہلے تھے نہ ہمارے باغ اور مکان ہیں جو ان سے پہلے تھے، سب اجنبی نظر آنے لگے، مجھے سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ اگر میں اس حال میں مرگیا تو رسول اللہ ﷺ میرے جنازہ کی نماز نہ پڑہیں گے، یا خدانخواستہ اس عرصہ میں حضور ﷺ کی وفات ہوگئی تو میں عمر بھر اسی طرح سب لوگوں میں ذلیل و خوار پھرتا رہوں گا، اس کی وجہ سے میرے لئے ساری زمین بیگانہ و ویرانہ نظر آنے لگی، اسی حال میں ہم پر پچاس راتیں گذر گئیں، اس زمانہ میں میرے دونوں ساتھی (مرارہ اور ہلال) تو شکستہ دل ہو کر گھر میں بیٹھ رہے اور رات دن روتے تھے، لیکن میں جوان آدمی تھا، باہر نکلتا اور چلتا پھرتا تھا اور نماز میں سب مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوتا تھا اور بازاروں میں پھرتا تھا مگر نہ کوئی مجھ سے کلام کرتا نہ میرے سلام کا جواب دیتا، رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں نماز کے بعد حاضر ہوتا اور سلام کرتا تو یہ دیکھا کرتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے لب مبارک کو جواب سلام کیلئے حرکت ہوئی یا نہیں، پھر میں آپ کے قریب ہی نماز پڑہتا تو نظر چرا کر آپکی طرف دیکھتا تو معلوم ہوتا کہ جب میں نماز میں مشغول ہوجاتا ہوں تو آپ میری طرف دیکھتے ہیں اور جب میں آپکی طرف دیکھتا ہوں تو رخ پھیر لیتے ہیں۔
جب لوگوں کی یہ بیوفائی دراز ہوئی تو ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی قتادہ کے پاس گیا جو میرے سب سے زیادہ دوست تھے میں ان کے باغ میں دیوار پھاند کر داخل ہوا اور ان کو سلام کیا، خدا کی قسم ! انہوں نے بھی میرے سلام کا جواب نہ دیا میں نے پو چھا کہ اے قتادہ کیا تم نہیں جانتے کہ میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھتا ہوں، اس پر بھی قتادہ نے سکوت کیا، کوئی جواب نہیں دیا، جب میں نے بار بار یہ سوال دہرایا تو تیسری یا چوتھی مرتبہ میں انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اللہ جانتا ہے اور اس کا رسول، میں رو پڑا اور اسی طرح دیوار پھاند کر باغ سے باہر آگیا، اسی زمانہ میں ایک روز میں مدینہ کے بازار میں چل رہا تھا کہ اچانک ملک شام کا ایک نبطی شخص جو غلہ فروخت کرنے کیلئے شام سے مدینہ میں آیا تھا اس کو دیکھا کہ لوگوں سے پوچھ رہا ہے کہ کیا کوئی مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتاسکتا ہے ؟ لوگوں نے مجھے دیکھ کر میری طرف اشارہ کیا، وہ آدمی میرے پاس آگیا اور مجھے شاہ غسان کا ایک خط دیا جو ایک ریشمی رومال پر لکھا ہوا تھا جس کا مضمون یہ تھا
" اما بعد ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ کے نبی نے آپ سے بیوفائی کی اور آپ کو دور کر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت اور ہلاکت کی جگہ میں نہیں رکھا ہے، تم اگر ہمارے یہاں آنا پسند کرو تو آجاؤ ہم تمہاری مدد کریں گے "۔
میں نے جب یہ خط پڑھا تو کہا کہ یہ اور ایک میرا امتحان اور آزمائش آئی کہ اہل کفر کو مجھ سے اس کی طمع اور توقع ہوگئی (کہ میں ان کے ساتھ مل جاؤں) میں یہ خط لے کر آگے بڑھا ایک دکان پر تنور لگا ہوا تھا اس میں جھونک دیا۔
حضرت کعب فرماتے ہیں کہ جب پچاس میں سے چالیس راتیں گذر چکی تھیں تو اچانک دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ایک قاصد خزیمہ بن ثابت میرے پاس آرہے ہیں، آکر یہ کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم دیا ہے کہ تم اپنی بیوی سے بھی علحدگی اختیار کرلو میں نے پوچھا کہ کیا طلاق دیدوں یا کیا کروں ؟ انہوں نے بتلایا کہ نہیں عملا اس سے الگ رہو قریب نہ جاؤ اسی طرح کا حکم میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی پہنچا میں نے بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکہ میں چلی جاؤ اور وہیں رہو جب تک اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ فرما دیں۔
ہلال بن امیہ کی اہلیہ خولہ بنت عاصم یہ حکم سن کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ ہلال بن امیہ ایک بوڑھے ضعیف آدمی ہیں اور کوئی ان کا خادم نہیں، ابن ابی شیبہ کی روایت یہ بھی ہے کہ وہ ضعیف البصر بھی ہیں کیا آپ یہ پسند نہیں فرمائیں گے کہ میں ان کی خدمت کرتی رہوں، فرمایا کہ خدمت کی ان میں کوئی حرکت ہی نہیں، اور واللہ ان پر تو مسلسل گریہ طاری ہے رات دن روتے رہتے ہیں۔
کعب بن مالک فرماتے ہیں مجھے بھی میرے بعض متعلقین نے مشورہ دیا کہ تم بھی آنحضرت ﷺ سے بیوی کو ساتھ رکھنے کی اجازت لے لو جیسا کہ آپ نے ہلال کو اجازت دے دی ہے میں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کروں گا، معلوم نہیں رسول اللہ ﷺ کیا جواب دیں اس کے علاوہ میں جوان آدمی ہوں (بیوی کو ساتھ رکھنا احتیاط کے خلاف ہے، چناچہ اسی حال پر میں نے دس راتیں اور گذاریں یہاں تک کہ پچاس راتیں مکمل ہوگئیں، مسند عبد الرزاق کی روایت میں ہے کہ اس وقت ہماری توبہ رسول اللہ ﷺ پر ایک تہائی رات گزرنے کے وقت نازل ہوئی، ام المؤ منین حضرت ام سلمہ جو اس وقت حاضر تھیں انہوں نے عرض کیا کہ اجازت ہو تو کعب بن مالک کو اسی وقت اس کی خبر کردی جائے آپ نے فرمایا کہ ایسا ہوا تو ابھی لوگوں کا ہجوم ہوجائے گا رات کی نیند مشکل ہوجا ئیگی۔
کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ پچاسویں رات کے بعد صبح کی نماز پڑھ کر میں اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا تھا اور حالت وہ تھی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے کہ مجھ پر میری جان اور زمین باوجود وسعت کے تنگ ہوچکی تھی، اچانک میں نے سلع پہاڑ کے اوپر سے کسی چلانے والے آدمی کی آواز سنی جو بلند آواز سے کہہ رہا تھا کہ اے کعب بن مالک بشارت ہو۔
محمد بن عمرو کی روایت میں ہے کہ یہ بلند آواز سے کہنے والے ابوبکر تھے جنہوں نے جبل سلع پر چڑھ کر یہ آواز دی کہ اللہ نے کعب کی توبہ قبول فرمالی بشارت ہو، اور عقبہ کی روایت میں یہ ہے کہ یہ خوشخبری حضرت کعب کو سنانے کے لئے دو آدمی دوڑے ان میں سے ایک آگے بڑھ گیا تو جو پیچھے رہ گیا تھا اس نے یہ کیا کہ سلع پہاڑ پر چڑھ کر آواز دے دی اور کہا جاتا ہے کہ یہ دوڑنے والے دو بزرگ حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم ؓ تھے۔
کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ یہ آواز سن کر میں سجدے میں گرگیا اور انتہائی فرحت سے رونے لگا، اور مجھے معلوم ہوگیا کہ اب کشادگی آگئی رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز کے بعد صحابہ کرام کو ہماری توبہ قبول ہونے کی خبر دی تھی، اب سب طرف سے لوگ ہم تینوں کو مبارکباد دینے کیلئے دوڑ پڑے، بعض لوگ گھوڑے پر سوار ہو کر میرے پاس پہنچے مگر پہاڑ سے آواز دینے والے کی آواز سب سے پہلے پہنچ گئی۔
کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری کے لئے نکلا تو لوگ جوق در جوق مجھے مبارکباد دینے کیلئے آرہے تھے، کعب فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما ہیں، آپ کے گرد صحابہ کرام کا مجمع ہے مجھے دیکھ کر سب سے پہلے طلحہ بن عبید اللہ کھڑے ہو کر میری طرف لپکے اور مجھ سے مصافحہ کرکے قبول توبہ پر مبارک باد دی طلحہ کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولتا جب میں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا تو آپ کا چہرہ مبارک خوشی کی وجہ سے چمک رہا تھا، آپ نے فرمایا کہ اے کعب بشارت ہو تمہیں ایسے مبارک دن کی جو تمہاری عمر میں پیدائش سے لے کر آج تک سب سے زیادہ بہتر دن ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ حکم آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں، یہ حکم اللہ تعالیٰ کا ہے تم نے سچ بولا تھا اللہ تعالیٰ نے تمہاری سچائی کو ظاہر فرما دیا۔
جب میں آپ کے سامنے بیٹھا تو عرض کیا یا رسول اللہ میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنے سب مال و متاع سے نکل جاؤں کہ سب کو اللہ کی راہ میں صدقہ کردوں، آپ نے فرمایا نہیں کچھ مال اپنی ضرورت کیلئے رہنے دو یہ بہتر ہے، میں نے عرض کیا کہ اچھا آدھا مال صدقہ کردوں آپ نے اس سے بھی انکار فرمایا، میں نے پھر ایک تہائی مال کی اجازت مانگی تو آپ نے اس کو قبول فرما لیا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اللہ نے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی ہے اس لئے میں عہد کرتا ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں کبھی سچ کے سوا کوئی کلمہ نہیں بولوں گا، پھر فرمایا کہ جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سچ بولنے کا عہد کیا تھا الحمد اللہ آج تک کوئی کلمہ جھوٹ کا میری زبان پر نہیں آیا، اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے اس سے محفوظ رکھیں گے، کعب فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم ! اسلام کے بعد اس سے بڑی نعمت مجھے نہیں ملی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سچ بولا جھوٹ سے پرہیز کیا کیونکہ اگر میں جھوٹ بولتا تو اسی طرح ہلاکت میں پڑجاتا جس طرح دوسرے جھوٹی قسمیں کھانیوالے ہلاک ہوئے جن کے بارے میں قرآن میں یہ نازل ہوا(آیت) سَيَحْلِفُوْنَ باللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَيْهِمْ سے لے کر فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ تک بعض حضرات نے فرمایا کہ ان تینوں حضرات سے مقاطعہ کا پچاس دن تک جاری رہنا شاید اس حکمت پر مبنی تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے غزوہ تبوک میں پچاس دن ہی صرف ہوئے تھے (یہ پوری روایت اور تفصیل واقعہ تفسیر مظہری سے لیا گیا ہے)۔
فوائد متعلقہ حدیث مذکورہ کعب بن مالک
حضرت کعب بن مالک نے اپنے واقعہ کو جس شرح و بسط اور تفصیل سے بیان فرمایا ہے اس میں مسلمانوں کے لئے بہت سے فوائد اور ہدایات ہیں، اسی لئے اس جگہ اس حدیث کو پورا لکھا گیا ہے وہ فوائد یہ ہیں
ا۔ اس حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی عادت عام غزوات میں یہ تھی کہ جس طرف جانا ہوتا اس کی مخالف سمت سے مدینہ طیبہ سے روانہ ہوتے تاکہ مخالفین اسلام کو یہ معلوم نہ ہو کہ آپ کس قوم یا قبیلہ کے جہاد کے لئے جا رہے ہیں، اسی کو آپ نے فرمایا الحرب خدعۃ یعنی جنگ میں دھوکہ دینا جائز ہے، اس سے بعض لوگ اس مغالطہ میں پڑجاتے ہیں کہ جنگ و جہاد میں جھوٹ بول کر مخالف کو دھوکہ دینا جائز ہے یہ صحیح نہیں بلکہ مراد اس دھوکہ سے یہ ہے کہ اپنا عمل ایسا کرے جس سے مخالفین دھوکہ میں پڑجائیں، جیسے جہاد کیلئے مخالف سمت سے نکلنا، صریح جھوٹ بول کر دھوکہ دینا مراد نہیں وہ جنگ میں بھی جائز نہیں، اسی طرح یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ یہ عمل دھوکہ جس کو جائز قرار دیا ہے اس کا کوئی تعلق عہد و معاہدہ سے نہیں اور عہد شکنی صلح ہو یا جنگ کسی حال میں جائز نہیں۔
2۔ سفر کیلئے رسول اللہ ﷺ کو جمعرات کا دن پسند تھا خواہ سفر جہاد کا ہو یا کسی دوسری ضرورت کا۔
3۔ اپنے کسی بزرگ مرشد یا استاد یا باپ کو راضی کرنے کے لئے جھوٹ بولنا جائز بھی نہیں اور اس کا انجام بھی اچھا نہیں رسول اللہ ﷺ کو تو حقیقت حال کا علم بذریعہ وحی ہوجاتا تھا، اس لئے جھوٹ بولنے کا انجام برا تھا جیسا کہ کعب بن مالک اور دوسرے متخلفین کے واقعہ مذکورہ سے واضح ہوا، آپ کے بعد دوسرے بزرگوں کو وحی تو ہو نہیں سکتی الہام و کشف سے علم ہوجانا بھی ضروری نہیں، لیکن تجربہ شاہد ہے کہ جھوٹ بولنے کی ایک نحوست ہوتی ہے کہ قدرتی طور پر ایسے اسباب جمع ہوجاتے ہیں کہ بالاخر یہ بزرگ اس سے ناراض ہو ہی جاتا ہے۔
4۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ کسی گناہ کی سزا میں مسلمانوں کے امیر کو یہ بھی حق ہے کہ کسی شخص سے سلام و کلام قطع کردینے کا حکم دے دے جیسے اس واقعہ میں ان تین بزرگوں کے متعلق پیش آیا۔
5۔ اس واقعہ سے صحابہ کرام کی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ انتہائی محبت معلوم ہوئی کہ اس ناراضی اور مقاطعہ سلام و کلام کے زمانہ میں بھی غایت محبت سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضری بھی نہیں چھوڑی اور کن انکھیوں سے دیکھ کر آپ کی توجہ اور تعلق کا حال معلوم کرنے کی فکر رہی۔
6۔ کعب بن مالک کے گہرے دوست قتادہ کا معاملہ کہ ان کے سلام کا جواب نہ دیا اور کوئی کلام نہ کیا، یہ ظاہر ہے کہ یہ کسی دشمنی یا مخالفت یا بغض سے نہیں بلکہ حکم رسول اللہ ﷺ کے اتباع کی وجہ سے تھا، اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا بنایا ہوا قانون صرف لوگوں کے ظاہر پر نافذ نہ ہوتا تھا بلکہ دلوں پر بھی اس کی حکومت ہوتی تھی اور حاضر و غائب کسی حال میں اس کے خلاف نہ کرتے تھے اگرچہ اس میں کسی بڑے سے بڑے دوست عزیز کے خلاف ہی ہو۔
7۔ حضرت کعب کے پاس بادشاہ غسان کا خط آنے اور اس کو تنور میں ڈالنے کے واقعہ سے صحابہ کرام کے ایمان کی انتہائی پختگی معلوم ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ اور تمام مسلمانوں کے مقاطعہ سے سخت پریشان ہونے کے عالم میں بھی ایک بڑے بادشاہ کے لالچ دلانے سے ان کے دل میں کوئی میلان پیدا نہیں ہوا۔
8۔ قبول توبہ نازل ہونے کے بعد صدیق اکبر اور فاروق اعظم اور عام صحابہ کرام کا کعب بن مالک کو بشارت دینے کیلئے دوڑنا اور اس سے پہلے سب کا سلام و کلام تک سے سخت پرہیز کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ مقاطعہ کے زمانے میں بھی ان سب کے دلوں میں حضرت کعب سے محبت اور تعلق تھا، مگر حکم رسول کے سامنے سب کچھ چھوڑا ہوا تھا، جب آیت توبہ نازل ہوئی تو ان کے گہرے تعلق کا انداز ہوا۔
9۔ صحابہ کرام کا حضرت کعب کو خوشخبری دینے اور مبارکباد کیلئے جانے سے معلوم ہوا کہ کسی خوشی کے موقع پر اپنے دوست احباب کو مبارکباد دینا سنت سے ثابت ہے۔
10۔ کسی گناہ سے توبہ کے وقت مال کا صدقہ کرنا گناہ کے اثر کو زائل کرنے کے لئے بہتر ہے مگر تمام مال خیرات کردینا اچھا نہیں، ایک تہائی مال سے زائد صدقہ کرنا رسول اللہ ﷺ نے پسند نہیں فرمایا۔
Top