Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 39
فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَمَنْ : بس جو۔ جس تَابَ : توبہ کی مِنْ : سے بَعْدِ : بعد ظُلْمِهٖ : اپنا ظلم وَاَصْلَحَ : اور اصلاح کی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يَتُوْبُ عَلَيْهِ : اس کی توبہ قبول کرتا ہے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور جو شخص گناہ کے بعد توبہ کرے اور نیکوکار ہو جائے تو خدا اس کو معاف کر دے گا کچھ شک نہیں کہ خدا بخشنے والا مہربان ہے
فمن تاب من بعد ظلمہ واصلح فان اللہ یتوب علیہ پھر جس نے اپنی بےجا حرکت کے بعد توبہ کرلی اور عمل درست کرلیا تو کوئی شک نہیں کہ اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔ توبہ سے مراد ہے کئے ہوئے گناہ پر پشیمانی اور اس کے لئے استغفار اور استغفار کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا عہد اور اصلاح سے مراد ہے ‘ اپنے اعمال کو درست کرلینا (توبہ کا معنی ہے لوٹنا جب اس کے بعد لفظ علیٰ آتا ہے اور اللہ کی طرف توبہ کی نسبت کی جاتی ہے تو رحمت کے ساتھ بندہ کی طرف متوجہ ہونے اور توبہ قبول کرنے کے معنی ہوتے ہیں پس) یَتُوْبُ عَلَیْہِ کا معنی یہ ہے کہ اللہ بندہ پر رحم کریگا اور اس کی توبہ قبول کرے گا اور آخرت میں اس کو عذاب نہیں دے گا۔ کیا توبہ کرنے سے دنیوی سزا بھی ساقط ہوجاتی ہے ؟ امام احمد (رح) نے فرمایا توبہ کرنے سے ہر دنیوی سزا (حد شرعی) ساقط ہوجاتی ہے۔ اس قول کے ثبوت میں ایک تو اسی آیت سے استدلال کیا جاتا ہے (جس میں توبہ قبول ہونے کی کوئی قید نہیں بیان کی نہ دنیا کی نہ آخرت کی) اس کے علاوہ ایک اور آیت ہے ‘ اللہ نے فرمایا ہے واللَّذَانِ یَاْتِیَانِہَا مِنْکُمْ فَاْذُوْہُمَا فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاعْرِضُوْا عَنْہُمَا (اور تم میں سے جو شخص یعنی مرد و عورت زنا کا ارتکاب کریں ان کو دکھ پہنچاؤ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اعمال ٹھیک کرلیں تو ان سے درگزر کرو) تیسرے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ گناہ سے توبہ کرنے والا بےگناہ کی طرح ہے۔ امام شافعی کے ایک قول میں حد شرعی کا سقوط اس وقت ہوجاتا ہے جب توبہ کئے ایک سال گزر جائے۔ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا قول ہے اور ایک روایت میں امام احمد اور امام شافعی کا یہی قول آیا ہے کہ توبہ سے کوئی دنیوی حد شرعی ساقط نہیں ہوتی ‘ ہاں آیت مذکورہ میں چونکہ رہزنی کی حد شرعی کا استثناء آگیا ہے اس لئے توبہ سے صرف وہ معاف ہوجاتی ہے۔ امام احمد کی اوّل الذکر دونوں دلیلوں کا احناف و موالکیہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ اس آیت سے تو سقوط معلوم نہیں ہوتا ‘ رہی دوسری آیت تو اس کا حکم شروع میں تھا پھر (جب حد شرعی کی تجویز ہوگئی تو) اس کو منسوخ کردیا گیا۔ دیکھو حضرت ماعز اور غامدیہ عورت (نے جب زنا کا اقرار کیا تو ان کو توبہ کرنے کے بعد بھی سنگسار کیا گیا تھا۔ مسئلہ حاکم کے پاس مقدمہ دائر ہونے اور جانے سے پہلے اگر چور نے چوری کا مال مالک کو واپس کردیا تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ‘ امام ابو یوسف کے نزدیک اس صورت میں بھی ہاتھ کاٹا جائے گا ‘ اوّل قول کی وجہ یہ ہے کہ چوری ہونے کے لئے دعویٰ ضروری ہے لہٰذا ہاتھ کاٹنے کے لئے بھی حاکم تک مقدمہ کا پہنچنا شرط ہے اور جب مال واپس دے دیا تو دعویٰ کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ‘ ہاں اگر دعویٰ دائر ہونے گواہان ثبوت پیش ہونے اور فیصلہ ہو چکنے کے بعد مال واپس کیا تو ہاتھ کاٹنا ضروری ہے اور فیصلہ سے پہلے شہادت سنی جانے کے بعد بھی یہی حکم ہے (یعنی قطع ید ہوگا) کیونکہ شہادت سے حاکم کے سامنے چوری ثابت ہوگئی اور دعویٰ بھی دائر ہوچکا۔ مسئلہ کیا چور کا ہاتھ کٹنے کے بعد آخرت کا گناہ معاف ہوجاتا ہے۔ مجاہد نے کہا معاف ہوجاتا ہے ‘ حضرت عبادہ بن صامت راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اردگرد صحابہ کی جماعت موجود تھی ‘ آپ نے فرمایا مجھ سے بیعت کرو اس شرط پر کہ کسی کو (ربوبیت ‘ معبودیت اور خصوصی صفات میں) اللہ کا شریک نہ بناؤ گے ‘ چوری نہ کرو گے ‘ زنا نہ کرو گے ‘ اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے ‘ دیدۂ و دانستہ کسی پر بہتان تراشی نہ کرو گے اور کسی بھلائی میں نافرمانی نہ کرو گے ‘ تم میں سے جو شخص اس معاہدہ کو پورا کرے گا تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہوگا اور جو شخص مذکورہ افعال میں سے کسی فعل میں مبتلا ہوجائے گا اور اس کو دنیا میں اس کی سزا دے دی جائے گی تو اس کے گناہ کا اتار ہوجائے گا ‘ اور اگر مذکورہ افعال میں سے کوئی فعل کرنے کے بعد اللہ اس کے فعل پر پردہ ڈال دے گا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد رہے گا ‘ چاہے معاف کرے ‘ چاہے سزا دے۔ متفق علیہ۔ بغوی نے لکھا ہے ‘ صحیح یہ ہے کہ حد شرعی (قطع دست) جرم کی سزا ہے ‘ توبہ کرنے کی اس کے بعد ضرورت ہے ‘ اس کا ثبوت حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے ملتا ہے کہ ہاتھ کاٹنے اور داغنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس کو حکم دیا تھا اللہ سے توبہ کرو اور اس نے عرض کیا میں اللہ سے توبہ کرتا ہوں ‘ آپ نے فرمایا تو اللہ نے بھی تیری توبہ قبول فرما لی۔ ان اللہ غفور رحیم بیشک اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
Top