Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 4
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ
وَالَّذِينَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان رکھتے ہیں بِمَا : اس پر جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا إِلَيْکَ : آپ کی طرف وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِکَ : آپ سے پہلے وَبِالْآخِرَةِ : اور آخرت پر هُمْ يُوقِنُونَ : وہ یقین رکھتے ہیں
اور جو کتاب (اے محمد) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں
قال تعالیٰ والذین یؤمنون بما انزل الیک۔۔۔ الی۔۔۔ اولئک ھم المفلحون اور وہ متقی لوگ ایسے ہیں جو ایمان لائے اس کتاب پر جو تیری طرف نازل ہوئی اور ان کتابوں پر جو تجھ سے پہلے نازل ہوئیں اس سے مومنین اہل کتاب مراد ہیں۔ جیسے عبداللہ بن سلام وغیرہ ؓ اسی لیے اس جگہ والذین کو مکرر لائے کہ یہ متقین کا دوسرا گروہ ہے۔ اور پہلی آیت میں اہل عرب اور امیین کا ذکر تھا وابالاخرۃ ھم یوقنون اور متقین کے یہ دونوں گروہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں آخرت کا تذکرہ اور استحضار متقین کا خاص شعا رہے بخلاف کافروں کے کہ وہ ہر وقت دنیا ہی کی فکر میں رہتے ہیں اور آخرت سے غافل ہیں۔ اور وہ متقی لوگ ایسے ہیں جو ایمان لائے اس کتاب پر جو تیری طرف نازل ہوئی اور ان کتابوں پر جو تجھ سے پہلے نازل ہوئیں اس سے مومنین اہل کتاب مراد ہیں۔ جیسے عبداللہ بن سلام وغیرہ ؓ اسی لیے اس جگہ والذین کو مکرر لائے کہ یہ متقین کا دوسرا گروہ ہے۔ اور پہلی آیت میں اہل عرب اور میین کا ذکر تھا وبالاخرۃ ھم یوقنون اور متقین کے یہ دونوں گروہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ آخرت کا تذکرہ اور استحضار متقین کا خاص شعار ہے بخلاف کافروں کے کہ وہ ہر وقت دنیا ہی کی فکر میں رہتے ہیں اور آخرت سے غافل ہیں۔ اولئک علی ھدی من ربھم ایسے ہی لوگ ہدایت پر قائم ہیں جو ان کو خدا کی توفیق اور فضل سے ملی ہے کلمۂ علی جو استعلاء کے لیے مستعمل ہوتا ہے اس سے اس جانب اشارہ ہے کہ یہ لوگ ہدایت پر حاوی اور متمکن ہیں اور ہدایت پر جم گئے ہیں من ربھم میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ نور ہدایت محض اس رب العالمین کی رحمت اور مہربانی اور اس کی توفیق سے ان کو عطاء ہوا ہے جس سے ان کی تربیت اور اصلاح مقصود ہے واولئک ھم المفلحون۔ اور ایسے ہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں۔ یعنی مومنین کے یہ دونوں گروہ دنیا میں حق تعالیٰ کی توفیق سے نور ہدایت سے سرفراز ہوئے اور آخرت میں اس کی رحمت اور فضل سے مراد کو پہنچیں گے اور مفلح اس کو کہتے ہیں کہ جو اپنی مراد کو بخوبی پہنچ جائے اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ اور کمی واقع نہ ہو پہلے جملہ یعنی اولئک علی ھدی من ربھم میں ایمان اور تقویٰ کے دنیاوی ثمرہ کا ذکر ہے اور دوسرے جملہ یعنی اولئک ھم المفلحون میں اخروی ثمرہ ذکر ہے بمبئی کا مسافر اگر غلطی سے کلکتہ میل میں بیٹھ جائے اور ریل چھوٹنے کے بعد معلوم ہو کہ یہ گاری بجائے بمبئی کے کلکتہ جارہی ہے تو اس مسافر کی پریشانی کی کوئی حد نہیں رہتی اور کلکتہ کے مسافروں کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔ ان کو اطمینان ہوتا ہے کہ ہمارا راستہ صحیح ہے۔ اور ہم دیر یا سویر میں ضرور منزل مقصود پر پہنچ جائیں گے۔ اور اولئک کو مکرر لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح ان متقین کو ہدایت پر تمکن اور استعلاء کی خصوصیت حاصل ہے اسی طرح ان کو فلاح کی بھی خصوسیت حاصل ہے یہ لوگ غیروں سے ان دو خصوصیتوں کی وجہ سے خاص طور پر ممتاز ہیں۔
Top