Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 4
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ
وَالَّذِينَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان رکھتے ہیں بِمَا : اس پر جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا إِلَيْکَ : آپ کی طرف وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِکَ : آپ سے پہلے وَبِالْآخِرَةِ : اور آخرت پر هُمْ يُوقِنُونَ : وہ یقین رکھتے ہیں
اور جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اس پر جو آپ پر اتارا گیا ہے1 1 ۔ اور (اس پر) جو آپ سے قبل اتارا گیا ہے12 ۔ اور آخرت پر بھی (وہ) پورا یقین رکھتے ہیں13 ۔
1 1 (اے ہمارے رسول) یعنی ان متقین کا چوتھا وصف یہ ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہیں رسول کے لائے ہوئے ہر پیغام پر، خواہ قرآن ہو یا اس کے علاوہ۔ آیت کی عبارت سے یہ مسئلہ صاف ہوجاتا ہے کہ تین چیزیں الگ الگ ہیں۔ ( 1) ایک کلام کا نازل کرنے والا۔ یعنی اللہ تعالیٰ ۔ (2) دوسرے وہ شخص جس پر کلام نازل ہوا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا رسول برحق۔ (3) تیسرے، خود کلام۔ بروز تمثل، حلول اور وحدت والوجود (اپنے عوامی مفہوم میں) ان سب مشرکانہ ونیم مشرکانہ عقائد کی جڑ اس آیت سے کٹ جاتی ہے۔ نہ کلام متمثل ہوا ہے، اور نہ رسول (نعوذ باللہ) اللہ کے اوتار، انسانی قالب میں خدا ہیں۔ بلکہ ایک مستقل انسانی شخصیت رکھتے ہیں۔ 12 (دوسرے پیغمبروں پر خواہ وہ کسی ملک، کسی قوم، کسی زمانہ کے ہوں) قرآن مجید نے اس امر کو صاف کردیا ہے کہ سلسلہ ارشاد وہدایت کوئی نوپیدا چیز نہیں بلکہ اس وقت سے قائم ہے جب سے انسان دنیا میں آئے۔ سلسلہ وحی کی عمر اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانیت کی۔ اور مومن کے لیے تصدیق صرف ختم المرسلین کی کافی نہیں، بلکہ سارے انبیاء ورسل کی کرنا ضروری ہے، خواہ وہ درجہ اجمال ہی میں ہو۔ انہیں متقین کا یہ پانچواں وصف ارشاد ہوا، کہ وہ بخلاف یہود ونصاری کے دوسرے انبیاء کی تعلیمات پر بھی اعتقاد رکھتے ہیں۔ مرشد تھانوی مدظلہ نے فرمایا کہ طالب کو اعتقاد تو تمم شیوخ اہل حق کے ایسا ہی رکھنا چاہیے جیسا اپنے شیخ کے ساتھ۔ لیکن اتباع صرف اپنے شیخ کا کرنا چاہیے۔ جیسا بعینہ یہی حکم انبیاء (علیہ السلام) کے باب میں ہے۔ 13 یہ چھٹا اور آخری وصف ان متقین اہل ضمیر کا بیان ہوا، جو قرآن سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ الاخرۃ سے مراد ہے دارالآخرت یا عالم آخرت۔ یعنی وہ عالم جو موجودہ سلسلہ زندگی کے بعد شروع ہوگا۔ اسے آخرۃ کہا ہی اسی لحاظ سے جاتا ہے کہ وہ اس ناسوتی زندگی کے خاتمہ کے بعد پیش آئے گا۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر کہیں دارالآخرہ سے آیا ہے اور کہیں صرف آخرۃ سے۔ ویعتبر بالدار الاخرۃ عن النشأۃ الثانیۃ وربما ترک ذکر الدار (راغب) انما وصفت بذلک لمصیرھا اخرۃ لاولی کانت قلبھا (ابن جریر) جزاوسزا کے لیے ایک مستقل آئندہ عالم پر یقین رکھنا دین صحیح کے لوازم میں سے ہے۔ یہیں سے تردید ہوگئی ان باطل مذہبوں کی جو کہنے کو تو مذہب ہیں، لیکن یا تو سرے سے جزاء اعمال ہی کے قائل نہیں، یا قائل تو ہیں لیکن اس جزا کا محل ومکان اسی عالم ناسوت کو سمجھتے ہیں۔ خواہ ایک ہی قالب میں یا کئی کئی قالبوں میں۔ بعض جدید اہل باطل نے الاخرۃ کا ترجمہ کیا ہے ” زمانہ آخر کی وجہ “۔ تاکہ اس سے ان کی خود ساختہ نبوت کا اجرا قرآن سے ثابت ہو۔ لیکن یہ نہ ترجمہ ہے نہ تفسیر۔ یہ صرف تمسخر وتلعب ہے، قرآن مجید اور لغت عربی دونوں کے ساتھ۔ یوقنون۔ ایقان یا یقین کے معنی یہ نہیں کہ محض عقل کسی عقیدہ کو استدلال مان لے۔ یا منطق بادل ناخواستہ سکوت پر مجبور ہوجائے۔ یا دماغ اس کے مان لینے کا محض سرسری، رسمی طور پر لفظی اقرار کرلے۔ جیسا کہ اکثر فلسفیانہ نظریوں کے ساتھ معاملہ رہتا ہے۔ بلکہ یقین یہ ہے کہ اس مسئلہ پر دل وجان سے اعتقاد جم جائے، اور عقل، جذبات، ارادہ سب پر وہی چھا جائے، یقین کی راہ شک، گمان، خیال سب سے الگ ہے۔ الیقین ازاحۃ الشک (تاج) الیقین من صفۃ العلم فوق المعرفۃ والدرایۃ واخواتھا (راغب) الایقان اتقان العلم بانتفاء الشک والشبھۃ عنہ (کشاف) الیقین العلم دون الشک (قرطبی) وبالاخرۃ ھم یوقنون۔ یقین کا مرتبہ یوں بھی محض علم سے قوی تر تھا، پھر فقرہ کی ترکیب یعنی فعل یوقنون کے تأخر اور بالاخرۃ کے تقدم اور ھم کے اضافہ نے قوت کئی درجہ اور بڑھا دی مطلب یہ ہوا کہ مومنین متقین کے نزدیک آخرت اس درجہ اہم ہے کہ گویا وہ بس اسی پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی عقیدہ ان کی زندگی میں رچا بسا رہتا ہے۔
Top