Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 4
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ
وَالَّذِينَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان رکھتے ہیں بِمَا : اس پر جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا إِلَيْکَ : آپ کی طرف وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِکَ : آپ سے پہلے وَبِالْآخِرَةِ : اور آخرت پر هُمْ يُوقِنُونَ : وہ یقین رکھتے ہیں
اور ان کی (رہنما ہے) جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے اور جو کچھ کہ آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے اس پر اور قیامت کے دن پر (بھی) ایمان لاتے ہیں
ترکیب : الذین موصول ثانی اور مآانزل الیک معطوف علیہ اور انزل من قبلک معطوف ‘ یہ معطوف اور معطوف علیہ دونوں جملے مفعول ہوئے یؤمنون کے یؤمنون اپنے فاعل ضمیر اور مفعول سے مل کر جملہ فعلیہ خبر یہ ہو کر صلہ ہوا الذین کا الذین موصول اپنے صلہ کے ساتھ مل کر معطوف ہوا پہلے الذین پر یا متقین پر۔ تفسیر : چونکہ یؤمنون بالغیب سے متبادر اور قریب الفہم خدا تعالیٰ کی ذات وصفات اور ملائکہ تھے اور کتب الٰہیہ اور قیامت کے دن پر بھی ایمان لانا ضروری تھا تو اس لیے اس عام بات میں سے ان کو خاص کرکے ذکر کیا اور یہ فصاحت اور بلاغت کی عمدہ بات ہے کہ کسی مطلب ضروری کو (گو وہ پہلی عبارت سے سمجھا جاتا ہو) جداگانہ بعد میں بھی خصوصیت کے طور پر ذکر کردیا جائے یا یوں کہو کہ جب یہ سورة نازل ہوئی (اعنی مدینہ میں) تو صاحب تقویٰ دو گروہ تھے ایک قدیم عرب کہ جو پہلے شرک و کفر میں گرفتار تھے اور پھر اسلام لائے۔ دوسرے اہل کتاب۔ عبداللہ بن سلام وغیرہ کہ جو پہلے مذہب یہودی یا نصرانی میں تھے اور پھر دولت اسلام سے مشرف ہوئے اور دونوں گروہوں کو ان صفات میں شامل کرنا ضرور تھا، اس لیے اول جملہ تو اول فریق کے لیے اور دوسرا دوسرے کے لیے ذکر کیا گیا اور یہ بات بتلا دی گئی کہ تقویٰ بغیر اس کے تمام نہیں ہوتا کہ جب تک خدا کے تمام صحیفوں پر ایمان نہ لائے یعنی وہ متقی ہیں کہ جو تجھ پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تورات و انجیل وغیرہ پہلے انبیاء پر نازل ہوئیں سب کو برحق مانتے ہیں۔ متعلقات : مَــآ اُنْزْلَ عَلَیْکَ سے مراد عام ہے خواہ وحی متلو ہو کہ جس کو جبرئیل (علیہ السلام) خدا کی طرف سے الفاظ مقررہ میں ادا کرتے تھے جس کو قرآن کہتے ہیں، خواہ وحی غیر متلو ہو کہ جو آنحضرت ﷺ پر بلا توسط جبرئیل یا بغیر الفاظ مقررہ نازل ہوئی یا جو کچھ انکشاف روحانی کے طور پر آنحضرت ﷺ کو معلوم کرایا گیا اور پھر آپ ﷺ نے اس کو ارشاد فرمایا سب پر ایمان لانا ضرور ہے جو ایک بات پر بھی ایمان نہ لاوے تو کافر ہوگا۔ وَمَآاُنْزْلَ مِنْ قَبْلِکَ سے مراد پہلے انبیاء (علیہم السلام) کے صحیفے ہیں، یعنی حضرت ابراہیم و موسیٰ اور دائود اور عیسیٰ (علیہم السلام) وغیرہم انبیاء کی کتابیں جو کہ ان کو خدا کی طرف سے ملی تھیں خواہ مضامین الہام ہوئے تھے اپنی عبارتوں میں ‘ انہوں نے جمع کرکے لکھوا دیا تھا ‘ عبارتیں بھی ویسی ہی عطا ہوئی تھیں۔ ہرچہ باشد والعلم عند اللہ تعالیٰ مگر سب کو برحق ماننالازم ہے وہ بہت سے صحیفے تھے۔ بہت سے ان میں سے ایسے ہیں کہ جن کے نام بھی باقی نہ رہے اور بعض کے نام اور کسی قدر صحیح اور الٹ پلٹ مضامین اب تک بھی باقی ہیں۔ مشہور کتب سابقہ میں سے یہ ہیں تورات جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی۔ زبور جو حضرت دائود (علیہ السلام) کو عطا ہوئی تھی اور انجیل جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ملی تھی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفے۔ سوال : یہ اخیر جملہ عبداللہ بن سلام وغیرہ علماء بنی اسرائیل کی مدح میں واقع ہے کہ وہ قرآن پر بھی اور اس سے پہلی کتابوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ جن کتابوں پر ایمان رکھتے تھے وہ برحق تھیں اور اس زمانہ تک موجود تھیں جس لیے اور مواضع قرآن میں بھی تورات و انجیل پر عمل کرنے کی تاکید اور ان کا محل نزاع میں طلب کرنا بیان ہوا ہے اور وہ جو اس وقت کتابیں اہل کتاب میں موجود تھیں وہ یہ ہی ہیں کہ جواب ہیں جن کے مجموعہ کو بائیبل اور اس کے دونوں حصوں کو عہد عتیق اور عہد جدید کہتے ہیں۔ پس اہل اسلام پر اس وقت کی تورات و انجیل و زبور اور نامہ حواریوں اور پولوس کے نامجات کی تصدیق ضرور ہوئی اور ان میں کفارہ اور الوہیت مسیح اور تثلیث موجود ہے، پس اس کا ماننا بھی مسلمانوں پر فرض ہوا اور پھر باوجود اس اقرار کے کیوں قرآن نے ان مسائل کو رد کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن آسمانی کتاب نہیں۔ جواب : اس سوال کا (کہ جس پر بہت سے پادری بڑے نازاں ہیں) یہ ہے کہ وہ کتابیں بیشک برحق تھیں ہمارا بھی ایمان ہے۔ ہاں یہ بات کہ 1 ؎ اس زمانہ میں بھی وہ کتابیں موجود ہیں غیر مسلم ہے کیونکہ انجیل کی نسبت تو تمام عیسائیوں کو بھی اقرار ہے اور خود انجیل موجود کے دیکھنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ انجیل حضرت مسیح عیسیٰ (علیہ السلام) کی نہیں نہ ان پر نازل ہوئی نہ انہوں نے اس کو تصنیف فرمایا، نہ ان کے زمانے میں تالیف ہوئی بلکہ سالہا سال بعد لوگوں نے سنے سنائے اور کسی قدر دیکھے ہوئے حالات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ابتدائے ولادت سے موت تک تاریخ کے طور پر جمع کردیے ہیں اور بہت سے لوگوں نے جمع کئے تھے چناچہ بعض کا اب نام و نشان بھی نہیں جیسا کہ یوحنا کی انجیل اخیر سے ثابت ہے اور بہت سے انجیلیں (تاریخ کی کتابیں) اب بھی موجود ہیں جیسا کہ انجیل برنباس وغیرہ مگر بھیڑیا چال اکثر عیسائی ان 1 ؎ یعنی نزول قرآن کے زمانہ میں۔ 12 منہ ہی چاروں 1 ؎ کو زیادہ مانتے ہیں اور بہت سے عیسائیوں نے وقتاً فوقتاً انکار بھی کیا ہے چناچہ پولوس مقدس (کہ جن کو عیسائی بڑا رسول اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بھی بڑھ کر سمجھتے ہیں) اپنے اس خط میں کہ جو گلتیون کو لکھا ہے اس کے پہلے باب میں یہ کہتا ہے کہ لوگوں نے انجیل کو الٹ پلٹ کردیا اور اے لوگو تم اور جعلی انجیلوں کی طرف کیوں مائل ہوگئے اصل انجیل بلاتوسط کسی انسان کے حضرت مسیح سے مجھ کو ملی ہے اس کے سوائے جو کوئی اور انجیل تم کو سنائے اس پر لعنت۔ انتہیٰ ، ملخصاً اور یہ ظاہر ہے کہ یہ چاروں انجیلیں پولوس کی وہ انجیل نہیں ہیں 2 ؎ پس یہ بھی نامقبول و مردود ہیں جو شخص پولوس کے کلام کو الہامی مانتا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ ان انجیلوں کو ہاتھ بھی نہ لگائے۔ یہاں سے ثابت ہوا کہ پولوس اور برنباس اور شمعون اور پطرس وغیرہم اکابر عیسائی ان چاروں انجیلوں کو تسلیم نہیں کرتے تھے نہ حواریوں کے زمانہ میں ان پر کچھ عملدرآمد رہا ہے اور اسی طرح جس کو تورات کہتے ہیں اس کے بھی صدہا مقامات سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ کتاب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے صدہا برس بعد کسی نے تاریخ کے طور پر جمع کی ہے چناچہ بہت سے محققین اہل کتاب بھی اس بات کے قائل ہیں اور زبور میں بھی ایسا ہی اختلاف ہے اور یہی حال اور کتابوں کا ہے اور ان کا محل نزاع میں طلب کرنا اور ان پر عمل کی مدح۔ سو یہ اس لیے تھا کہ ان کتابوں میں بیشتر عمدہ اور اصلی کتابوں کے مضامین پائے جاتے ہیں اور نیز مخاطبین ان کو تسلیم کرتے تھے اور اگر یہ کہئے کہ جب وہ اصلی کتابیں موجود نہ تھیں تو ان پر ایمان کیونکر لاسکتے تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگلے انبیاء موجود نہیں ان پر کس طرح ایمان لاتے تھے، اب ہم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ موجود نہیں ہیں، پھر کیا کوئی ہمارے ایمان لانے سے یہ کہہ سکتا ہے کہ عبدالحق مؤلف تفسیر حقانی کے زمانہ میں حضرت عیسیٰ و موسیٰ موجود تھے اگر آنحضرت ﷺ کے عہد میں اصلی تورات و انجیل موجود ہوتی تو آپ حضرت عمر فاروق ؓ پر تورات کے اوراق پڑھنے سے ناخوش نہ ہوتے اور نہ لا تصدقوا اہل الکتاب ولاتکذبو ہم فرماتے، پس جب اصلی کتابیں اس عہد میں موجود نہ تھیں بلکہ ان کے نام پر اور کتابیں لوگوں کی تصانیف تھیں کہ جن میں اصلی کتابوں کے بھی مضامین مندرج تھے، تو ان میں کفارہ و تثلیث و الوہیت مسیح اگر ہو بھی تو کب معتبر ہوسکتی ہے نہ ان پر ہم اہل اسلام کو ایمان لانا فرض ہے، بلکہ ایسے لغو مضامین سے احتراز واجب ہے، اگر قرآن نے ان کو رد کیا تو خوب کیا، ان کا اقرار کب کیا تھا، یہ قرآن کے حق ہونے کی دلیل قوی ہے، اس بحث کی تحقیق مقدمہ کتاب میں ہوچکی ہے جو چاہے وہاں دیکھ لے۔ نکات : (1) ایمان کے بارے میں مبداء و معاد کو بترتیب اس آیت میں ذکر کیا ہے اول یؤمنون بالغیب سے ذات وصفات باری کی طرف اشارہ کردیا بالآخرۃ ھم یوقنون میں قیامت کو بیان کردیا اور اس عالم کی ابتداء انتہا بھی اشارتاً بتلا دی۔ (2) بالآخرۃ ھم یوقنون میں صلہ کو مقدم کرکے اور یوقنون کو ھم پر مبنی کرکے اہل کتاب 3 ؎ کی پشت پر ایک تازیانہ سا مار دیا کہ آخرت پر یقین کرنا ان ہی کا حصہ ہے کہ جو قرآن کے ذریعہ سے تمام تفاصیل آخرت پر مطلع ہوگئے ہیں اور پھر ہر امر میں ان کو آخرت دکھائی دیتی ہے۔ دنیا اور اس کے منصب اور رسم کو اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں سمجھتے، تعصب اور عناد کو بھی اس کے خوف سے کام میں نہیں لاتے بخلاف تمہارے، اول تو تمہاری کتب موجودہ میں آخرت اور اس عالم کو پوری کیفیت نہیں اس تورات میں بنی اسرائیل کا دوزخ اور جنت ‘ دنیا 1 ؎ انجیل، متی مرقس، لوقا، یوحنا۔ 2 ؎ کس لیے کہ مرقس اور لوقا تو خود پولوس کے شاگرد ہیں اور ان کی یہ تصنیف اس نامہ کے آگے موجود ہونا کسی معتبر ذریعہ سے ثابت بھی نہیں۔ رہی متی کی انجیل اور یوحنا کی اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ پولوس کے اس خط لکھنے سے پہلے تصنیف ہوچکی تھیں اور شائع ہو کر پولوس تک بھی پہنچ گئی تھیں تو ان کی نسبت یہ کیونکر صادق آسکتا ہے کہ وہ بغیر کسی انسانی واسطے سے اس کو ملی تھیں۔ 12 منہ 3 ؎ سوا عبداللہ بن سلام ؓ وغیرہ کے۔ کی ناکامی (موت ‘ مرض ‘ قحط وغیرہ سے) یا کامیابی بتلائی ہے اور جو پہلے حصہ میں کچھ ہے تو معماسا ہے اور اس پر دنیا کی محبت اور قوم اور رسم کی پابندی سے بےانصافی کرکے اس نبی اور کتاب کو تم جھٹلاتے ہو کہ جو تمہارے انبیاء اور کتب اصلیہ کی تصدیق اور مدح کرتے ہیں۔ جب یہ ہے تو آخرت پر تمہارا کیا خاک یقین ہے۔ اگر آخرت آنکھوں کے سامنے ہوتی تو یہ باتیں نہ کرتے۔ جب خدائے تعالیٰ متقیوں کے اوصاف بیان فرما چکا یعنی سعادت کی جب شرح ہوچکی تو اب سعادت کے اس نتیجہ کو ذکر کرتا ہے کہ جو اس پر مترتب ہوتا ہے تاکہ سامع کو رغبت پیدا ہو۔
Top