Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 4
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ
وَالَّذِينَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان رکھتے ہیں بِمَا : اس پر جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا إِلَيْکَ : آپ کی طرف وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِکَ : آپ سے پہلے وَبِالْآخِرَةِ : اور آخرت پر هُمْ يُوقِنُونَ : وہ یقین رکھتے ہیں
اور جو کتاب (اے محمد) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں
(6:4) والذین ۔ واؤ عاطفہ ہے۔ الذین موصول ثانی ۔ یؤمنون ب فعل بافاعل۔ ما انزل الیک۔ ما موصولہ۔ انزل ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ الیک جار مجرور مل کر متعلق فعل انزل۔ فعل اپنے نائب فاعل (مفعول مالم یسم فاعلہ) اور متعلق فعل سے مل کر جملہ فعلیہ ہو کر صلہ ہوا ما موصولہ کا۔ موصول وصلہ مل کر معطوف علیہ ہوا اگلے جملہ کا۔ وما انزل من قبلک : واؤ عاطفہ، ما موصولہ، انزل ماضی مجہول واحد مذکر غائب (ضمیر مالم یسم فاعلہ، یا نائب فاعل کی طرف راجع ہے) من حرف جار، قبلک مضاف، مضاف مضاف الیہ مل کر مجرور، جار اور مجرور مل کر متعلق فعل انزل فعل اپنے نائب فعل اور متعلق فعل سے مل کر ما موصولہ کا صلہ ہوا۔ موصول اپنے صلہ سے مل کر معطوف ہے جملہ سابقہ پر، معطوف علیہ اور معطوف دونوں جملے مفعول ہوئے یؤمنون کے، یؤمنون اپنے فاعل ضمیر اور مفعول سے مل کر جملہ فعلیہ ہوا۔ اور صلہ ہوا۔ الذین کا۔ الذین موصول اپنے صلہ سے مل کر معطوف ہوا پہلے الذین پر یا متقین پر۔ وبالاخرۃ ھم یوقنون ۔ واؤ عاطفہ، بالاخرۃ جار مجرور مل کر متعلق فعل یوقنون ۔ کے، یوقنون فعل بافاعل اور متعلق فعل سے مل کر جملہ فعلیہ ہوکر خبر ہوئی ھم کی، جو مبتداء ہے، مبتدا اپنی خبر کے ساتھ مل کر جملہ اسمیہ ہوا۔ اور یہ جملہ اسمیہ یومنون کا معطوف ہوا۔ معطوف و معطوف علیہ مل کر صلہ ہوئے اپنے موصول الذین کا ۔ الذین موصول اپنے صلہ کے ساتھ مل کر پہلے الذین پر معطوف ہوا۔ اور معطوف علیہ اپنے معطوف سے مل کر صفت ہوئی۔ المتقین کی : والذین ۔۔ یوقنون ۔ (آیۃ 4) کا ترجمہ ہوا۔ (وہ کتاب ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لئے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور جو ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور جو ایمان رکھتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا آپ پر اور جو نازل کیا گیا آپ سے پہلے اور وہ قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں) ۔ گویا متقین کی مندرجہ ذیل تین مزید صفات ہیں۔ (1) وہ ایمان رکھتے ہیں اس پر جو (اے محمد ﷺ ) آپ پر نازل کیا گیا۔ (2) وہ ایمان لاتے ہیں ان کتب الہیہ اور ان صحیفوں پر جو آپ سے قبل (دوسرے پیغمبروں پر) نازل کئے گئے۔ (3) وہ آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہین۔ الاخرۃ : ضد ہے دنیا کی : دنیا مشتق ہے دنو سے جس کے معنی قریب ہونا کے ہیں۔ خواہ یہ قرب ذاتی ، حکمی، مکانی، زمانی، یا بلحاظ مرتبہ کے ہو، چونکہ وہ حال کے بہت ہی قریب ہے اس لئے اسے دنیا کہتے ہیں۔ اسی طرح آخرت کو اس کے متاخر اور پیچھے ہونے کی وجہ سے آخرت کہتے ہیں۔ اصل میں دنیا اور آخرت دونوں دو صفتیں تھیں اب ان پر اسمیت غالب آئی اور استعمال میں دنیا و آخرت اسم کہلائے جانے لگے۔ ھم : ضمیر حصر کے فائدہ کی غرض سے یوقنون ۔ پر مقدم کی گئی ۔ یعنی آخرت کے گھر کا یقین صرف انہی پرہیزگاروں کو حاصل ہے جن کی چند صفتیں اوپر مذکور ہو چکیں۔ یوقنون : مضارع جمع مذکر غائب ایقان (افعال) مصدر، وہ یقین کرتے ہیں۔
Top